1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تمہاری ناک کاٹنے کے لیے افغان مرد کے حوالے نہ کر دیا جائے‘

شمشیر حیدر11 اپریل 2016

گزشتہ دنوں ایک افغان قانون ساز کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئی جس میں وہ مبینہ طور پر ایک خاتون صحافی کو اس کی ناک کاٹنے کی دھمکی دیتے دیکھے گئے تھے۔ صحافی نے خاوند کی جانب سے جنسی استحصال کے بارے میں سوال کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1ITLi
Afghanistan Protest und Demonstration Gedenken an Farkhunda
تصویر: DW/H. Sirat

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق افغان رکن پارلیمان نذیر احمد حنفی کی ایک ایسی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئی جس میں مبینہ طور پر وہ ایک ’وائس ویب سائٹ‘ سے وابستہ خاتون صحافی ایزابیل ینگ کو اس کی ناک کاٹنے کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔ وائس ویب سائٹ نے اس ویڈیو کو ٹویٹر پر جاری کیا تو ایک ہی دن میں اسے چار ہزار سے زائد مرتبہ دوبارہ ٹویٹ کیا گیا۔

خاتون صحافی ینگ افغان رکن پارلیمان نذیر احمد حنفی سے خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں ایک بل کی بابت ان کی مخالفت کے حوالے سے انٹرویو کر رہی تھیں۔

ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون صحافی ان سے سوال پوچھتی ہیں، ’’اگر خاوند اپنی بیوی کو جنسی استحصال کا شکار بنائے تو کیا ایسے ’ڈومیسٹک ریپ‘ کی صورت میں عورت کو سزا ملنی چاہیے یا مرد کو؟‘‘ جس پر حنفی نے اس سے پوچھا، ’’آپ کی رائے میں ریپ کا کیا مطلب ہے؟‘‘ ینگ نے جواب دیا، ’’اگر مرد عورت سے جبری اختلاط کی کوشش کرے۔‘‘ حنفی نے انہیں جواباﹰ کہا کہ ریپ کے بارے میں آپ کی تعریف اسلامی تعریف سے مختلف ہے۔

خاتون صحافی نے دوبارہ سوال پوچھنے کی کوشش کی تو حنفی نے انہیں روک دیا جس کے بعد انہوں نے اپنا منہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال میں تمہاری ناک کاٹنے کے لیے میں تمہیں کسی افغان مرد کے حوالے کر دوں۔‘‘

نذیر احمد حنفی کا تعلق ہرات سے ہے اور وہ رکن پارلیمان ہونے کے علاوہ ایک مذہبی اسکالر بھی ہیں۔ حنفی کئی افغان جامعات اور مدرسوں میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔ ویڈیو انٹرنیٹ پر پھیل گئی تو اس کے بعد حنفی نے ’ریڈیو فری یورپ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے ایسی کوئی دھمکی دی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ویڈیو جعلی ہے۔

سوشل میڈیا ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر اس ویڈیو کو بے تحاشا مرتبہ شیئر کیا گیا اور حنفی کے طرز عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ فیس بک پر ایک صارف محمد بشیر نے دری زبان میں لکھا، ’’عزیز رکن پارلیمان آپ نے پوری افغان قوم کو بدنام کر دیا ہے۔ آپ کو خدا کے غضب کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘

افغانستان میں طالبان کا دور اقتدار ختم ہونے کے بعد خواتین کی صورت حال میں بہتری تو آئی ہے تاہم اب بھی افغان خواتین کو قانونی اور معاشرتی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے بھی حقوق نسواں کو اپنے ایجنڈے میں سر فہرست رکھا ہوا ہے لیکن انہیں اس ضمن میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید