1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تنزانيہ کی طالبات اور اساتذہ کی جنسی زيادتياں

9 اگست 2011

تنزانيہ ميں ہر سال ہزاروں طالبات کو تعليم مکمل کيے بغير ہی اسکول چھوڑ دينا پڑتا ہے۔ سبب اُن کا حاملہ ہو جانا ہوتا ہے۔ اُن کے حاملہ ہونے کی کئی وجوہات ہيں، جن ميں سے ايک اساتذہ کی دست درازی ہے۔

https://p.dw.com/p/12DV4
تنزانيہ کا ايک اسکول
تنزانيہ کا ايک اسکولتصویر: DW/Thomas Kohlmann

مشرقی افريقہ کے ملک تنزانيہ کے ايک اسکول ’اہانا ميلو سيکنڈری اسکول‘ کے طلبہ کی يونيفارم سف‍يد شرٹ، ٹائی اور نيلی پتلون اور طالبات کے ليے سفيد شرٹ، ٹائی اور نيلی اسکرٹ ہے۔ اسی اسکول کی ايک طالبہ ايستھر بھی ہے، جس کی عمر 19 سال ہے اور جو دسويں کلاس ميں پڑھ رہی ہے۔ ليکن ايستھر کے ليے اسکول آنا اتنا آسان نہيں ہے۔ ايک تو اُسے اپنے گھر سے کوئی 10 کلوميٹر پیدل چل کر اسکول آنا پڑتا ہے اور دوسرے يہ کہ ايک سال پہلے اُس نے ايک بچی کو جنم ديا ہے۔ ايستھر نے کہا: ’’ميں باقاعدگی سے اسکول نہيں آتی۔ حمل کے دوران ميری صحت اچھی نہيں رہی اور اس وجہ سے بھی مجھے مسائل کا سامنا رہا۔‘‘

ايستھر خوش قسمت ہے کہ اس کے والدين اس کا ساتھ دے رہے ہيں ورنہ بہت سی دوسری لڑکيوں کی طرح اُسے بھی حاملہ ہو جانے کے بعد تعليم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑتا۔

دارالسلام، تنزانيہ ميں بم دھماکے کے بعد کاايک منظر
دارالسلام، تنزانيہ ميں بم دھماکے کے بعد کاايک منظرتصویر: AP

ايستھر اس پر بات نہيں کرنا چاہتی کہ وہ غير شادی شدہ ہونے کے باوجود آخر کس طرح حاملہ ہو گئی۔ امداد اطفال کی تنظيم پلان انٹرنيشنل کے ايک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اکثر لڑکياں اپنی مرضی کے بغير حاملہ ہو جاتی ہيں اور يہ مسئلہ اُن علاقوں ميں اور بھی زيادہ ہے جہاں غربت پائی جاتی ہے۔ شمال مغربی تنزانيہ کا خطہ گیٹا، جہاں ايستھر رہتی ہے، ملک کے غريب ترين علاقوں ميں شمار ہوتا ہے حالانکہ وہ سونے کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ بيسويں صدی کے آغاز پر يہ ایک جرمن نوآبادی تھی اور اُس زمانے ميں بھی يہاں سونے کی کانيں تھيں۔ ليکن يہاں کے لوگ اس دولت سے محروم ہيں کيونکہ سونے کی يہ تقريباً ساری کانيں غير ملکيوں کے قبضے ميں ہيں۔ ’تنزانيہ ميڈيا ویمن ايسوسی ايشن‘ کی انانيلی نائکہ کا کہنا ہے کہ لڑکياں مفلسی کی وجہ سے خاص طور پر خطرات کی زد ميں ہيں: ’’ذرا تصور کيجيے کہ ايک لڑکی صبح بغير کھائے پيئے گھر سے نکلتی ہےاور شايد 15 کلو ميٹر پيدل چل کر اسکول جاتی ہے۔ اکثر اسکول ميں بھی اُسے کھانے کو کچھ نہيں ملتا۔ ايسی کسی لڑکی کو کچھ معمولی سی چيز کھلانے پلانے کے بہانے بھی ورغلايا جا سکتا ہے۔‘‘

اسکول کے راستے ميں لڑکيوں پر حملے ہوتے ہيں۔ اُنہيں سائيکل يا موٹر سائيکل پر سوار ہونے کی دعوت دی جاتی ہے جس کا معاوضہ جنسی زيادتی کی صورت ميں وصول کيا جاتا ہے۔

تنزانيہ کا کينسر انسٹيٹيوٹ
تنزانيہ کا کينسر انسٹيٹيوٹتصویر: A.Leuker, IAEA

ليکن حقوق نسواں کی ایک تنظيم کے ايک جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اکثر خطرات اسکول کے راستے ميں نہيں بلکہ خود اسکول کے اندر ہوتے ہيں، جہاں مرد اساتذہ طالبات پر دست درازی اور اُن سے جنسی ملاپ کرتے ہيں۔ نائکہ نے کہا کہ اساتذہ مثال کے طور پر طالبات کو يہ دھمکیاں ديتے ہيں کہ اگر وہ جنسی رابطوں پر راضی نہ ہوئیں تو انہیں امتحان ميں فيل کر ديا جائے گا اور يہ ان کے لیے ان کے تعليمی سلسلے کا اختتام ہو گا۔ نائکہ نے کہا کہ اساتذہ کو بہت طاقت اور اختيار حاصل ہوتا ہے اور وہ طالبات کو بہت کچھ کرنے پر مجبور کر سکتے ہيں۔

نائکہ کے بقول تنزانيہ کے معاشرے ميں کرپشن روزمرہ کی بات ہے اور اسے برداشت کيا جاتا ہے۔ مجرموں کو بہت کم ہی سزا دی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ عوامی رقوم ميں خيانت کرتے اور اُنہيں ذاتی استعمال ميں لاتے ہيں۔ اساتذہ کو عام طور پر بڑی رقوم تک کوئی رسائی نہيں ہوتی، ليکن طالبات پر ان کا قابو چل سکتا ہے اور يہ اُن کا کرپشن کا طريقہ ہے۔

عام طور پر طالبات سے جنسی زيادتی کرنے والے اساتذہ کو کوئی سزا نہيں ملتی۔ ليکن تنزانيہ کے وزير تعليم شکورو کوامبوا کا کہنا ہے کہ اسی دوران سخت سزائيں دينے کے ضوابط جاری کر ديے گئے ہيں۔ بعض اسکولوں ميں کھانا اور رہائش فراہم کر کے بھی طالبات کو عصمت دری اور حاملہ ہونے کے خطرات سے بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

رپورٹ: ژان فیلپ شولس / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک