1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھپڑ مارنے کی دھمکی پر وزیر کی وزارت چلی گئی

عاطف بلوچ9 اپریل 2016

پرتگال کے وزیر ثقافت یوآن سواریش عوامی دباؤ کے نتیجے میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دو ناقدین کو تھپڑ مارنے کی دھمکی دی تھی، جس پر مطالبات شروع ہو گئے تھے کہ سواریش کو برطرف کر دیا جائے۔

https://p.dw.com/p/1IST6
Portugal Parlament Debatte Haushaltsentwurf Antonio Costa
وزیر اعظم انٹونیو کوسٹ (دائیں) نے گزشتہ برس نومبر میں اقتدار سنبھالا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/M. De Almeida

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ پرتگیزی کلچر منسٹر یوآن سواریش کا استعفیٰ قبول کر لیا گیا ہے اور حکمران پارٹی نے ان کے اس بیان پر عوام سے معذرت بھی کر لی ہے۔ سوشلسٹ سیاستدان سواریش کے دو ناقدین نے انہیں ’نااہل اور بدتمیز‘ قرار دیا تھا، جس پر سواریش نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا تھا کہ وہ ان دو کالم نویسوں کو ’تھپڑ مارنا‘ چاہتے ہیں۔ وزیر ثقافت کی اس ’ناشائستہ‘ پوسٹ پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

چھیاسٹھ سالہ سواریش نے عوامی ناراضی پر معافی بھی مانگ لی تھی لیکن حکمران جماعت پر دباؤ بڑھ گیا تھا کہ وہ سواریش کو برطرف کر دے۔ سابق صدر اور وزیر اعظم ماریو سواریش کے بیٹے یوآن سواریش نئی حکومت کے پہلے وزیر ہیں، جو اپنے عہدے سے الگ ہوئے ہیں۔ موجودہ سوشلسٹ وزیر اعظم انٹونیو کوسٹا نے گزشتہ برس نومبر میں اقتدار سنبھالا تھا۔

اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے وزیر اعظم کوسٹا نے جمعرات سات اپریل کو رات گئے عوام کے نام ایک معافی نامہ بھی جاری کیا، جس میں واضح کیا گیا تھا کہ سواریش کا بیان ان کی پارٹی کی پالیسی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ انہوں نے اپنی کابینہ کے ارکان سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مستقبل میں محتاط رہیں اور یہ بات ہرگز مت بھولیں کہ وہ حکومت کا حصہ ہیں۔ پھر جمعہ آٹھ اپریل کو وزیر اعظم نے یہ بھی کہہ دیا کہ سواریش کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔

وزیر اعظم کوسٹا نے سواریش کی دفتری خدمات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے مستعفی ہو جانے کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ پرتگال میں میڈیا اور فیس بک صارفین نے سواریش کے اس بیان پر سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے ناقدین کو تھپڑ مارنے کی دھمکی ’انتہائی نازیبا اور ناشائستہ‘ حرکت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بالخصوص ملکی وزیر ثقافت کی طرف سے ایسا بیان قطعی ناقابل قبول ہے۔

ادھر اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹ سیاستدانوں نے بھی سواریش کے اس بیان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل سواریش کا یہ بیان حکمران پارٹی کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں ’تنقید اور آزادی اظہار رائے‘ کے احترام کی کمی ہے۔