1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونسی خواتین پر غیرمسلموں سے شادی کی پابندی ختم کر دی گئی

عابد حسین
16 ستمبر 2017

تیونس کی حکومت نے ملکی صدر کی سفارش پر مسلمان خواتین کی غیرمسلموں سے شادی پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔ تیونسی صدر کا کہنا ہے کہ اُن کے ملک کو ایک جدید ریاست کی صورت اختیار کرنے میں امتیازی رویے ختم کرنے ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/2k5bg
Tunesien Tunis Frauenbewegung Demonstration
تصویر: picture alliance/abaca

شمالی افریقی ملک تیونس کی حکومت نے اپنے صدر محمد الباجی قائد السبسی کی سفارش پر ملکی مسلمان خواتین پر غیر مسلم مردوں سے شادی کرنے پر عائد پابندی کو فوری طور پر ہٹا دیا ہے۔ قبل ازیں تیونس کے مردوں کو یہ اجازت حاصل تھی کہ وہ غیر مسلم خواتین سے شادی کر سکتے ہیں لیکن مسلمان عورتیں ایسا نہیں کر سکتی تھیں۔ صدر السبسی کا کہنا ہے کہ تیونس کو ایک جدید ریاست کی صورت دینے کی کوشش میں تمام امتیازی قوانین کو ختم کرنا اور رویوں میں تبدیلی پیدا کرنا ضروری ہے۔

تیونسی مہاجرین کی جرمنی سے واپسی تیز بنانے کی کوشش

’ہر پانچ میں سے ایک عرب‘ نوجوان ہجرت کرنا چاہتا ہے، رپورٹ

’الجزئر، مراکش اور تیونس محفوظ ممالک‘، جرمن ایوان زیریں

تیونس کی فاطمہ بن غفریش ’ مس اسلامک ورلڈ‘

دسمبر سن 2014 سے تیونس پر محمد الباجی قائد السبسی کی صدارت میں قائم لبرل حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جو اُن کی آزاد حکومتی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ تیونسی حکومت کے ایک اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اب کسی بھی مسلمان عورت اور غیر مسلم مرد کے درمیان شادی کا آزادانہ طریقے سے اندراج یا رجسٹرڈ کیا جا سکتا ہے۔ تیونس میں مسلمان خواتین پرغیر مسلموں سے شادی کی پابندی سن 1973 میں عائد کی گئی تھی۔

TunesienDemoProtestRückkehrDschihadisten
تیونسی خواتین ایک مظاہرے میں شریک ہیںتصویر: Getty Images/F.Belaid

یہ امر اہم ہے کہ تقریباً گزشتہ تین برسوں سے الباجی قائد السبسی کی حکومت نے صنفی امتیاز کی پالیسی کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ تیونس میں تقریباً سبھی ملازمت پیشہ شعبوں میں خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور مردوں کو خاص طور پر ترجیح دی جاتی ہے۔ السبسی حکومت وراثت کے قوانین میں بھی تبدیلی لانے کی کوشش میں ہے اور ابھی تک وہ وراثت میں عورتوں کے لیے مساوی حقوق کی پالیسی کا اطلاق نہیں کر پائی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس حکومتی اعلان پر تیونس کے  سبھی مسلمان حلقوں سے تعلق رکھنے والے علماء حکومت کی مخالفت کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔ ان علماء کا کہنا ہے کہ مذہبِ اسلام میں شادی کے قوانین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ ان علماء کے مطابق تیونس کا نظام انصاف اور عدالتی طریقہٴ کار بھی اسلامی شریعت کے اصولوں پر استوار ہے۔   

انیس عامری کے گھر والے سکتے میں