1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان میں پھر سے ایک نئے وزیر اعظم کی ضرورت

2 جون 2010

جاپانی وزیر اعظم یُوکیو ہاتویاما نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔۔ حکمران ڈیمو کریٹک پارٹی کو اُمید ہے کہ یہ استعفےٰ آئندہ ماہ ایوانِ بالا کے انتخابات میں اِس جماعت کی دوبارہ کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/NfXs
تصویر: AP

اِس طرح عوام میں غیر مقبول تریسٹھ سالہ ہاتویاما صرف آٹھ ماہ برسرِ اقتدار رہے۔ اپنے استعفے کے ساتھ وہ ایسے چوتھے جاپانی وزیر اعظم بن گئے ہیں، جن کا عرصہء اقتدار ایک سال یا اُس سے بھی کم رہا۔ ہاتویاما انتخابی مہم کے دوران جاپانی عوام سے کیا ہوا یہ وعدہ نہیں نبھا سکے کہ برسرِ اقتدار آ کر وہ ’اوکی ناوا‘ میں واقع امریکی فوجی اڈے کو کہیں اور منتقل کروا دیں گے۔ ماہرین کو توقع ہے کہ موجودہ وزیر مالیات ’ناعوتو کان‘ نئے سربراہِ حکومت بن جائیں گے۔

ہاتویاما کے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد ڈالر کے مقابلے میں جاپانی کرنسی ین کی قدر و قیمت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ٹوکیو کے بازارِ حصص میں شیئرز کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جاپانی تاجر گزشتہ کچھ عرصے سے اقتصادی پالیسیوں کے شعبے میں نظر آنے والے جمود کے خاتمے کی اُمید کر رہے ہیں۔

Ichiro Ozawa
ڈیموکریٹک پارٹی کے سیکریٹری جنرل اِشیرو اوزاوا بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئےتصویر: AP

جب ہاتویاما نے اپنے استعفے کا اعلان کیا تو اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے: ’’اپنی جماعت کو نئے سرے سے تحریک دینے کے لئے ہمیں ایک ایسی ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف لوٹنا ہو گا، جو ہر اعتبار سے صاف اور شفاف ہو۔‘‘ ہاتویاما کے ساتھ ساتھ اُن کے بعد دوسرے طاقتور ترین سیاستدان اِشیرو اوزاوا بھی جماعت کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ جمعہ چار جون کو جاپانی ڈیموکریٹس کا وہ اجلاس منعقد ہو گا، جس میں نئی قیادت چُنی جائے گی۔ ڈیموکریٹس کے ایک رکنِ پارلیمان نے کہا کہ نئی کابینہ غالباً آئندہ ہفتے متعارف کروائی جائے گی۔

ڈیموکریٹک پارٹی DPJ گزشتہ برس اگست کے انتخابات میں برسرِ اقتدار آئی تھی، جب اُس نے نصف صدی سے زیادہ عرصے سے برسرِ اقتدار چلے آ رہے لبرل ڈیموکریٹس کو اقتدار سے رخصت ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ ہاتویاما ’تبدیلی‘ کا نعرہ لے کر آئے تھے لیکن اُن کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرتا چلا گیا، یہاں تک کہ اُن کی عوامی حمایت آخر میں صرف سترہ فیصد رہ گئی۔ مئی کے اواخر میں مخلوط حکومت میں شامل ایک چھوٹی جماعت ’اوکی ناوا‘ کے امریکی فوجی اڈے کی منتقلی سے متعلق تنازعے کے باعث حکومتی اتحاد سے الگ ہو گئی تھی۔ ان تنازعات کے باعث کاروبارِ حکومت مفلوج ہو کر رہ گیا تھا اور ملک کو درپیش بڑے مسائل کے حل کی جانب کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی تھی۔ اِن میں سے سب سے بڑا مسئلہ جاپان کے ذمے واجب الادا وہ قرضے ہیں، جن کا تناسب بڑھ کر مجموعی قومی پیداوار کے تقریباً دو سو فیصد تک پہنچ چکا ہے۔

US Marine Base in Okinawa
ہاتویاما جاپانی شہر اوکی ناوا میں واقع امریکی فوجی اڈہ جاپان ہی میں کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کا انتخابی وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہےتصویر: AP

مبصرین کے مطابق ہاتویاما جانتے تھے کہ جاپانی عوام عشروں سے برسرِ اقتدار چلی آ رہی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی LDP کی اقربا پروری، اسکینڈلز اور بے عملی سے تنگ آ چکے ہیں، اتنے تنگ کہ اُنہوں نے ایک ایسی جماعت کو ملک کی قیادت سونپ دی، جسے حکومت کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔

جاپان میں گزشتہ سال کے انتخابات کے نتائج ایک انقلاب کی مانند تھے۔ تاہم ہاتویاما اُن قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ نہ کر سکے، جن کی دُنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت کو ضرورت تھی۔ اُنہوں نے قوم سے ایسے وعدے کئے، جنہیں وہ پورا نہ کر سکے۔ جب وہ اپنے وعدے کے مطابق ’اوکی ناوا‘ کے اڈے کو جاپان ہی میں کسی اور جگہ منتقل نہ کر سکے تو اُن کے حکومتی اتحاد میں شامل سوشل ڈیموکریٹس نے احتجاج کیا۔ ہاتویاما نے اپنی کابینہ سے سوشل ڈیموکریٹ وُزراء کو نکال باہر کیا۔ تاہم ملکی ذرائع ابلاغ نے ہاتویاما کے اِس اقدام کی سخت مخالفت شروع کر دی اور میڈیا کی اِسی مہم کی بدولت بالآخر ہاتویاما کو اب جانا پڑا ہے۔

تاہم ہاتویاما کے استعفے کا مطلب جاپان میں حکومت کی تبدیلی نہیں ہے۔ گو ڈیموکریٹک پارٹی مشکلات کا شکار ہے لیکن اُسے قومی پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں بدستور کافی اکثریت حاصل ہے اور یہی ایوانِ زیریں نئے وزیر اعظم کو منتخب کرنے کا مجاز ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جولائی میں ایوانِ بالا کے انتخابات میں یہ جماعت کیا کارکردگی دکھا پائے گی۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک