1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا‘

3 اپریل 2021

پانچ دہائیوں تک اپنی آواز سے لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے پاکستان کے نامور لوک گلوکار شوکت علی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ پاکستانی شوبز حلقوں میں اس وقت سوگ ہے اورلاکھوں مداح غمزدہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/3rYA8
Pakistanischer Sänger Shaukat Ali
تصویر: Privat

گلوکار شوکت علی پچھلے کچھ عرصے سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور لاہور کے ایک ہسپتال (سی ایم ایچ) میں ان کا علاج جاری تھا ۔ جگر نے کام کرنا چھوڑا تو طبیعت بگڑنے پر انہیں تشویش ناک حالت میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں بھی داخل کرایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔

’چراغ طور جلاؤ‘ مہدی حسن کے بعد ’بڑا اندھیرا ھے‘

 لوک گلوکاری میں خلا

شوکت علی کی گائیکی کےکیریئر پر گہری نظر رکھنے والے ایک سینئر صحافی محمود شام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شوکت علی کی موت سے پاکستان میں لوک گلوکاری کے ایک شاندار عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے اور لوک گلوگاری کے شعبے میں شوکت علی کی موت سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے، اسے شاید اب آنے والے دنوں میں کبھی پورا نہ کیا جا سکے۔

Pakistanischer Sänger Shaukat Ali
شوکت علی کو پنجابی کا صوفیانہ کلام گانے سے ابتدائی شہرت حاصل ہوئی تھیتصویر: Privat

محمود شام کے مطابق شوکت علی کی آواز میں جو گونج اور وسعت تھی، مشکل سے مشکل کلام کو خوبصورتی کے ساتھ گانے پر جو مہارت حاصل تھی اس نے انہیں گلوکاری کے شعبے میں ممتاز بنا دیا تھا۔

شوکت علی کی گائیکی

محمود شام سمجھتے ہیں کہ پنجابی لوک موسیقی میں عنایت حسین بھٹی کے بعد شوکت علی کا کنٹریبیوشن بہت نمایاں ہے۔ ان کے بقول  ایک زمانے میں شوکت علی کو پنجابی شعراء کا صوفیانہ کلام گانے پربھی بڑی شہرت ملی۔ 

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب شوکت علی نے 'کدی تے ہس بول وے‘ والا گیت گایا تو ہر خاص و عام نے اس گیت کو بہت ہی پسند کیا، ''کیوں دور دور رہندے او‘‘، اور ''جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا‘‘ سمیت ان کے کئی گیت زبان زد عام ہوئے۔

شوکت علی کا علاج اور بے بسی

محمود شام بتاتے ہیں کہ شوکت علی کافی عرصے سے بیمار تھے۔ اتنا بڑا فنکار فری علاج والے ہسپتالوں میں پھرتا رہا، اس کے بچے امداد کی اپیلیں کرتے رہے۔ سی ایم ایچ تک تو وہ آخری دنوں میں پہنچا۔ لیکن بھاری فنڈز رکھنے والے محکمہ ثقافت کے لئے کیا اس کو علاج کے لئے باہر بھیجنا کوئی مشکل تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پرائڈ آف پرفارمنس رکھنے والے ستتر سالہ شوکت علی کی وفات پر وزیراعظم عمران خان ، وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت پاکستان کی بہت سی اہم شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ 

گلِ صحرائی ریشماں کو گزرے سال بیت گیا

ایک بڑا گلوکار گزر گیا

مشہور گلوکار جواد احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شوکت علی بہت بڑا گلوکار تھا اور اس کا تعلق گلوکاروں کے اس قبیلے سے تھا جو فن گائیکی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرکے اس میدان میں آئے تھے۔ ان کے بقول ایسے لوگ اب ختم ہوتے جارہے ہیں۔

Pakistanischer Sänger Shaukat Ali
شوکت علی گلوکاری کے میدان میں موسیقی کی تربیت حاصل کر کے داخل ہوئے تھےتصویر: Privat

جواد احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئی نسل  (موسیقی کے گھرانوں کے بچوں کو چھوڑ کر)  زیادہ تر گلوگار ایسے ہیں جنہوں نے فن گائیکی کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں لے رکھی ہے۔ جواد احمد نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ شوکت علی اس دور میں انڈسٹری میں آئے جب غریب کا بچہ بھی گلوکار بن سکتا تھا لیکن اب صورتحال بہت بدل چکی ہے۔

شوکت علی کی موت کا نقصان

گلوکارہ سائرہ نسیم  نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شوکت علی کی موت سے جو نقصان ہوا ہے یہ کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ وہ لوک گلوکاری سے تعلق رکھنے والی ایک لیجنڈری شخصیت تھے۔ ہم انہیں ایک استاد کے طور پر دیکھا کرتے تھے اور ان کا ہمارے جیسے قدرے جونئیر فنکاروں کے ساتھ رویہ بہت مشفقانہ ہوتا تھا۔

جگجیت سنگھ کی چوتھی برسی اور بھارت میں نفرت کی سیاست

ایک سوال کے جواب میں سائرہ نسم کا کہنا تھا کہ شوکت علی کی زندگی سے ایک سبق ساتھی فنکاروں کو یہ بھی ملتا ہے کہ اپنی جوانی میں اپنے بڑھاپے کے مالی معاملات کی بہتر منصوبہ بندی کر لیں تاکہ مشکل وقت میں کسی کا انتظار نہ کرنا پڑے۔