1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’جب دشمن کے پاس ہے تو دوست کیوں محروم رہیں‘‘

عدنان اسحاق16 اکتوبر 2015

مشرق وسطٰی میں جوہری ہتیھاروں کی دوڑ کے پیش نظر متحدہ عرب امارت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنے امریکی ساتھی سے یورینیم افزودہ کرنے کے حق کی بات کی ہے۔ یہ بات انہوں نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے تناظر میں کی۔

https://p.dw.com/p/1GpCx
تصویر: Getty Images

امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ایڈ روئس نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات بھی یورینیم افزودہ کرنے کا حق حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان کے بقول یو اے ای کے سفیر برائے واشنگٹن یوسف العتیبہ نے اُنہیں فون پر کہا کہ ان کا ملک خود کو امریکا کے ساتھ طے کیے جانے والے جوہری معاہدے پر مزید عمل درآمد کا پابند محسوس نہیں کر رہا۔ ایڈ روئس کے مطابق العتیبہ نے کہا کہ امریکا کے دشمن کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے اور اب دوست بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ عالمی طاقتوں اور تہران حکومت کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدے کے طے ہونے کے بعد ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کر دی گئی ہے اور اسے یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔

Anti-Atomkraft
تصویر: Fotolia/lassedesignen

2009ء میں امریکا اور یو اے ای کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کی رو سے امریکا نے یو اے ای کو جوہری توانائی میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور آلات مہیا کرنے کی حامی بھری تھی۔ اس’’ 123 ایگریمنٹ‘‘ نامی معاہدے کے تحت ’یو اے ای‘ نہ تو یورینیم افزودہ کر سکتا ہے اور نہ ہی اس عمل میں استعمال شدہ جوہری ایندھن کو ری پروسس کر کے اس سے پلوٹونیم حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، ان دونوں طریقوں پر عمل کرتے ہوئے جوہری ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں جب واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے سے رابط کیا گیا تو انہوں نےجواب میں ایک مختصر سا تحریری بیان جاری کیا ’’حکومت نے ’ 123 ایگریمنٹ‘ پر باضابطہ طور پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنے خیالات اور نقطہ نظر کو تبدیل کیا ہے‘‘۔ اس سے قبل یو اے ای ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کا خیر مقدم بھی کر چکا ہے۔ ایڈ روئس کے بقول اس بیان کو کچھ اس طرح سے سمجھا جا سکتا ہے کہ شاید یو اے ای یہ باور کرانا چاہ رہا ہے کہ اسے یورینیم افزودہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اس پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔ روئس کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے، جو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بھرپور خلاف تھے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس رپورٹ پر کسی قسم تبصرہ کرنے سے معزرت کر لی ہے۔