1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی:’’پَیری روڈان‘‘ سائنس فکشن سیریز کے 48 سال

رپورٹ: امجد علی / ادارت: کشور مصطفےٰ28 جولائی 2009

جرمنی میں ’’پَیری روڈان‘‘ نامی سائنس فکشن سیریز 1961ء میں شروع ہوئی تھی اور اِس سال جولائی میں اِس سلسلے کی دو ہزار پانچ سو وِیں کتاب منظرِ عام پر آئی۔

https://p.dw.com/p/IzB8
تصویر: Verlag Pabel-Moexig

اب بھی ہر ہفتے ایک نئی قسط کے ساتھ بازار میں آنے والی اِس سیریز کو دنیا کی طویل ترین سائنس فکشن سیریز بھی کہا جا رہا ہے۔’’پَیری روڈان‘‘ سیریز کی پہلی جلد آٹھ ستمبر سن 1961ء کو شائع ہوئی۔ کائنات کے طول و عرض میں محوِ سفر رہنے والے اِس کردار کی مہمات پر مبنی اِس سیریز کی دنیا بھر میں اب تک ایک ارب سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔

’’پَیری روڈان‘‘ کا کردار کے ایچ شیئر اور والٹر ایرنسٹنگ نے تخلیق کیا تھا، جو خود کو کلارک ڈارلٹن کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ شاید ساٹھ کے عشرے کے اوائل کے جرمنی میں انگریزی طرز کے ناموں کا فیشن بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اِس سیریز کے ہیرو کے لئے بھی کائی مُلر یا پھر پیٹر رِشٹر جیسے روایتی اور مخصوص جرمن ناموں کی بجائے ایک امریکی میجر پَیری روڈان کو جرمن قارئین کے لئے زیادہ قابلِ قبول تصور کیا گیا۔

Perry Rhodan Comic
تصویر: Verlag Pabel-Moexig

بیرنہارڈ کیمپن، جو آج کل اِس سیریز کے مصنفین میں سے ایک ہیں، بتاتے ہیں:’’پیری روڈان چاند پر جانے والے پہلے شخص تھے، جو کہانی کے مطابق 1971ء میں ’’سٹارڈسٹ‘‘ نامی خلائی جہاز کے ذریعے وہاں تک پہنچے۔ اُس کے بعد کی کہانی یوں ہے کہ وہاں ان خلابازوں کو ایک اجنبی خلائی جہاز ملتا ہے۔ یہ جہاز آرکونِیڈنز کا ہوتا ہے، جن کی تکنیکی مدد سے ستاروں کی جانب جانے والا راستہ کھولا جاتا ہے۔ یوں ایک زبردست خلائی اوپیرا کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔‘‘

امریکی خلائی مشن اپالو گیارہ کے خلا بازوں نےسن 1969ء میں چاند پر قدم رکھے جبکہ ’’پَیری روڈان‘‘ سیریز کی ساٹھ کے عشرے کے اوائل میں شائع ہونے والی کتاب میں بتایا گیا تھا کہ میجر روڈان مستقبل قریب یعنی 1971ء میں چاند پر قدم رکھتے ہیں۔ کہانی میں اِس خلائی مشن کا نام ’’مشن سٹارڈسٹ‘‘ رکھا گیا تھا، جس پر 1967ء میں اِسی نام سے جرمنی میں ایک فلم بھی بنی تھی۔

Science Fiction Serie Perry Rhodan
تصویر: Pabel-Moewig-Verlag KG, Rastatt

کہانی کے ہیرو ’’پَیر ی روڈان‘‘ کے جسم میں خَلیوں کو تحریک دینے والا ایک آلہ نصب ہے، جس کے باعث وہ بوڑھا نہیں ہوتا۔ اُسے کہانی میں مسلسل ایک اُنتالیس سالہ شخص کے روپ میں دکھایا گیا ہے، جس کی عمر وقت کے ساتھ ساتھ تین ہزار برس ہو چکی ہے۔ وہ ٹائم مشین کے ذریعے کبھی ماضی کی دنیاؤں کی سیر کرتا ہے اور کبھی دور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا حصہ بنتا ہے۔

’’پَیری روڈان‘‘ سیریز پر ڈاکٹریٹ کرنے والے جرمن زبان و ادب کے ماہر رائنر شٹاخے اِس سیریز کے بارے میں کہتے ہیں:’’اجنبی اور نامعلوم دنیاؤں کا سفر ہی ہمیشہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہماری اصل حقیقت کتنی محدود ہے۔‘‘

شٹاخے بتاتے ہیں کہ ہر ہفتے شائع ہونے والی یہ سیریز ایک آئینے کی طرح ہے، جس میں پورے معاشرے کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ کہانی جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے، اِس میں دَورِ حاضر کے تنازعات کو بھی موضوع بنایا جا رہا ہے۔