1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور سعودی عرب ’’عسکری ساتھی کے لیے اسلحے کی برآمدات‘‘

6 دسمبر 2018

یمن میں انسانی حقوق کے شدید خلاف ورزیوں کے باوجود سعودی عرب جرمن اسلحے کا ایک بڑا خریدار ہے۔ ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ صحافی خاشقجی کے قتل سے ریاض کو اسلحے کی فراہمی عارضی طور پر ہی معطّل کی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/39aMz
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner

یمن میں اکثر اچانک کیے جانے والے فضائی حملے تباہی اور ہلاکتوں کا سبب بنتے ہیں۔ اسکول کے بچوں سے بھری بسوں کو نشانہ بنا دیا جاتا ہے، شادیوں کی محفلیں سوگوار تقریب میں بدل جاتی ہیں، یمن  میں آج کل ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یمن میں تقریباً روزانہ بے گناہ شہری ایسی کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں، جن کا کوئی عسکری جواز موجود نہیں ہے۔

Wirtschaftsminister Rösler besucht Saudi Arabien
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

ریاض جرمن اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار

رواں برس جنوری سے ستمبر تک جرمنی کی جانب سے سعودی عرب کو 416 ملین یورو سے زائد کی مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کی اجازت دی گئی۔ اس طرح الجزائر کے بعد سعودی عرب جرمن اسلحہ خریدنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اکتوبر میں برلن حکومت نے سعودی عرب کو مزید 254 میلن یورو اسلحہ فراہم کرنے کا گرین سگنل دیا۔

 اس موقع پر جرمنی کی بنی ہوئی عسکری کشتیوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ ڈوئچے ویلے کے مطابق ایسی سات جنگی کشتیاں پہلے ہی سعودی عرب کے حوالے کی جا چکی ہیں۔ یہ چالیس میٹر لمبی ہیں اور ان پر اسلحہ بھی نصب ہے۔

ماکس مچلر نامی ایک ماہر کے مطابق ان عسکری کشتیوں کو سمندری ناکہ بندی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، ’’ان کے ذریعے کسی بحری جنگی جہاز کو تباہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے ذریعے راستوں کی نگرانی کی جائے گی۔‘‘

Deutsche Rüstungsexporte U-Boot vom Typ 214
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Pfeiffer

کیا جرمنی یمن میں ہونے والی ان ہلاکتوں کا شریک ذمہ دار ہے؟ کیا سعودی عرب کو دی جانے والی کشتیاں سمندری ناکہ بندی میں کردار ادا کر رہی ہیں؟ اور کیا جرمنی سے برآمد کیا جانے والے اسلحہ کا یمنی جنگ میں مارے جانے والے ساٹھ ہزار سے زائد انسانوں کی ہلاکتوں میں کوئی کردار ہے؟

جرمنی کی مخلوط حکومت نے رواں برس کے آغاز میں فیصلہ کیا تھا کہ یمن کی جنگ میں ملوث کسی بھی فریق کو اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔