1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور یورپ میں سیاستدانوں کی ’ٹرمپ ایفیکٹ‘ کے خلاف تنبیہ

مقبول ملک
11 نومبر 2016

امریکی صدارتی الیکشن میں ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن جیت کے بعد وفاقی جرمن حکومت میں شامل چانسلر میرکل کی قدامت پسند پارٹی کے رہنماؤں نے ٹرمپ کی کامیابی کے یورپی اور جرمن سیاست پر پاپولسٹ اثرات کے خلاف خبردار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2SZ2z
Symbolbild Flüchtlingsgegner Pegida AFD Rechte
’ہم مہاجرین کو خوش آمدید نہیں کہہ رہے‘: جرمنی میں مہاجرین اور اسلام مخالف پارٹی اے ایف ڈی خاصی مقبولیت حاصل کر چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Schutt

یورپی سیاست میں آئندہ ممکنہ ’ٹرمپ ایفیکٹ‘ کے بارے میں تین بنیادی سوال اور ان کے جواب:

امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی یورپی اور جرمن سیاست کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟

ایسا یقینی طور پر اور کئی طرح سے ممکن ہے۔ اس لیے کہ امریکا میں اس مرتبہ عوام نے نہ صرف پہلی بار ایک خاتون کو صدر منتخب کرنے سے انکار کر دیا بلکہ ساتھ ہی ایک ’سیاسی آؤٹ سائیڈر‘ کو منتخب کر کے انہوں نے آٹھ سال تک وائٹ ہاؤس میں رہنے والے باراک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی اور موجودہ سیاسی انتظامیہ کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ جمہوریت میں جب عوام غیر مطمئن ہوں تو پھر وہ غیر متوقع فیصلے بھی کرتے ہیں۔ برطانوی شہری اسی سال جون میں بریگزٹ ریفرنڈم کی صورت میں ایک بہت بڑا اور غیر متوقع فیصلہ کر چکے ہیں۔ مجموعی طور پر یورپی یونین کو ابھی تک مہاجرین کے بہت بڑے بحران کا سامنا ہے، جس پر عام شہری ناخوش ہیں۔ کئی یورپی ملکوں میں گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران مہاجرین کی آمد کی مخالف حکومتیں اقتدار میں آ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ملکوں میں دائیں بازو کی پاپولسٹ یا عوامیت پسند جماعتوں کو حاصل تائید میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ لہٰذا امریکا میں صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد یہ بالکل ممکن ہے کہ یورپی ملکوں میں بھی ایسے ایک دو یا زیادہ ٹرمپ دیکھنے میں آئیں۔ اس لیے یورپی اور جرمن سیاسی جماعتوں کی تشویش اپنی جگہ بجا ہے۔

USA Florida Naples Wahlkampf Präsidentenwahl Trump
ارب پتی بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابی مہم کا ایک مرکزی نعرہ تھا: ’امریکا کو دوبارہ عظیم بناؤ‘تصویر: picture-alliance/AP Photo/ E. Vucci

جرمن سیاست میں ’ٹرمپ ایفیکٹ‘ کو روکنے کے لیے سیاست دان کیا مشورے دے رہے ہیں؟

اس سلسلے میں تنبیہ تو بہت سے جرمن سیاست دانوں نے کی تاہم سب سے اہم بات چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کے ایک سابق سربراہ اور موجودہ وزیر خزانہ وولفگانگ شوئبلے نے کی ہے۔ ان کے مطابق امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد جرمنی اور یورپ میں بڑی اور مرکزی سیاسی دھارے کی جماعتوں کو، چاہے ان کا جھکاؤ دائیں بازو کی طرف ہو یا بائیں باز وکی طرف، ایسی پالیسیاں اپنانا چاہییں کہ حکمرانوں سے بددلی یا عدم اطمینان کی عوامی سوچ کا تدارک کیا جا سکے۔ دوسری صورت میں یورپی یونین، مہاجرین یا اسلام کی مخالفت کرنے والی قدرے نئی لیکن تیزی سے مقبول ہوتی ہوئی عوامی تحریکیں اور سیاسی پارٹیاں اتنی طاقت ور ہو جائیں گی کہ یورپی سیاست میں ’ٹرمپ ایفیکٹ‘ کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔

Brexit Reaktionen Archivbild Marine Le Pen
فرانس میں تارکین وطن پر شدید تنقید کرنے والی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پینتصویر: Reuters/H.-P. Bader

اگلے سال یورپی یونین کے جرمنی اور فرانس سمیت کئی ملکوں میں عام الیکشن بھی ہونا ہیں۔ تو اب سیاست دانوں کو کرنا کیا ہو گا؟

سیاست دان جرمنی کے ہوں یا یورپ کے، ان کا کام اب دوگنا ہو گیا ہے۔ پہلے تو خود امریکا میں ٹرمپ کی کامیابی کے دھچکے سے نکلنا۔ پھر عام شہریوں کو قائل کرنا کہ صرف غیر مطمئن ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے متنازعہ بیانات دے کر ہی آئینی، جمہوری اور منصفانہ سیاست نہیں کی جا سکتی۔ یورپی سیاست دان یہ بھی جانتے ہیں کہ سیاسی عوامیت پسندی صرف امریکا ہی کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کا سامنا گزشتہ چند برسوں سے خود براعظم یورپ کو بھی ہے۔