1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی بدر ہونے والے افغان مہاجرین کی زندگی دوبارہ داؤ پر؟

صائمہ حیدر
31 مئی 2017

رواں برس کے پہلے دو ماہ میں جرمنی نے افغان تارکین وطن کی کل دائر کردہ پناہ کی درخواستوں میں سے نصف کو مسترد کر دیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی نمائندہ زاندرا پیٹرزمَن نے جرمنی بدر ہوئے ایک افغان مہاجر سے گفتگو کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2duYy
aus Deutschland nach Afghanistan abgeschobene Afghanen
رحمت اُن چونتیس افغان مہاجرین میں سے ایک تھا جنہیں چودہ دسمبر سن 2016 کو ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے فرینکفرٹ سے کابل بھیجا گیا تھاتصویر: DW/S. Petersmann

جرمنی سے واپس افغانستان بھیجے جانے والے تارکِ وطن رحمت سے رابطہ کرنا مشکل ہے۔ ’رحمت‘ اس کا اصلی نام بھی نہیں۔ جب وہ پہلی بار جرمنی سے واپس افغانستان لوٹا تھا، تب اُس نے میڈیا کو متعدد انٹرویو دیے تھے۔ اس امید پر کہ اس کے مسئلے پر میڈیا کی توجہ اس کی جرمنی واپسی میں مددگار ثابت ہو گی۔ لیکن اب رحمت نے تنہائی اختیار کر لی ہے۔ رحمت کابل واپس آچکا ہے اور جنگ زدہ افغانستان میں اُس کی زندگی کو لاحق خطرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ رحمت نے ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دینے پر آمادگی کا اظہار بھی صرف اسی لیے کیا کیونکہ وہ جرمنی سے منسلک ہر رابطے سے تعلق میں رہنا چاہتا ہے۔

رحمت اُن چونتیس افغان مہاجرین میں سے ایک تھا جنہیں چودہ دسمبر سن 2016 کو ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے فرینکفرٹ سے کابل بھیجا گیا تھا۔ تب سے ہر ماہ جرمن حکومت ایک چارٹرڈ طیارے میں نوجوان افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیج رہی ہے۔ ایسی ہر فلائٹ پر تین لاکھ یورو سے زیادہ کی لاگت آتی ہے جو یورپین یونین اور یورپی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس مل کر ادا کرتے ہیں۔

 افغانستان نے یورپی یونین اور یورپی ممالک کے ساتھ افغان باشندوں کی واپسی کا معاہدہ کیا ہےاور ان میں جرمنی بھی شامل ہے۔ اس کے بدلے میں یورپین شراکت کاروں کی طرف سے افغانستان کی مدد کی جاتی ہے۔ ڈوئچے ویلے کی نمائندہ زاندرا پیٹرز من سے بات چیت کے دوران رحمت مضطرب اور بے چین تھا۔ اُس  نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس کے والد ایک اہم فوجی کمانڈر تھے جنہیں آٹھ برس قبل طالبان نے مار دیا تھا۔

رحمت کا کہنا تھا،’’ اگر  طالبان کو میرا پتہ چل گیا تو وہ مجھے بھی مار ڈالیں گے۔‘‘ تاہم رحمت کی اس کہانی  پر جرمنی کی وفاقی ایجنسی برائے مہاجرت نے یقین نہیں کیا اور اُس کی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ افغانستان کے جنگ زدہ صوبے غزنی میں پلنے بڑھنے والا رحمت سن 2011 میں دس لاکھ ڈالر کی خطیر رقم دے کر براستہ ایران، ترکی اور یونان، جرمنی پہنچا تھا۔ وہ چھ سال تک جرمن شہر شُٹٹ گارٹ کے ایک مضافاتی علاقے میں رہا تاوقتیکہ اسے جرمنی بدر نہیں کر دیا گیا۔ یہ رقم اس کے گھر والوں نے اُسے دی تھی۔

aus Deutschland nach Afghanistan abgeschobene Afghanen
تصویر: DW/S. Petersmann

رحمت کا کہنا ہے کہ اُسے اس کی والدہ اور بھائی کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ غزنی چھوڑنے کے بعد سے اُس کی کبھی اپنے گھر والوں سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ رحمت غزنی واپس جانا نہیں چاہتا کیونکہ وہاں اب بھی جنگ جاری ہے۔ اب رحمت کابل میں اپنے جرمنی کے ایک افغان دوست کے گھر والوں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ سارا دن کابل کی گلیوں میں ملازمت کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے لیکن کابل میں پہلے سے موجود بے روزگار افراد کی کمی نہیں۔ اپنی بے چینی دور کرنے کے لیے رحمت سارا دن اپنے اسمارٹ فون کا سہارا لیے رہتا ہے۔

انٹرنیشنل سائیکولوجی آرگنائزیشن کی فرشتہ قدیز کا کہنا ہے کہ رحمت کی یہ حالت ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ قدیز کے مطابق،’’ اگر ایک نوجوان شخص کو ایک نئے معاشرے میں بخوبی ضم ہونے کے بعد اسے اُس کے قدامت پسند روایتی ملک  واپس بھیج دیا جائے تو وہاں رہنا اُس کے لیے بہت مشکل ہو گا۔‘‘

افغانستان میں مہاجرین کے لیے مشاورت  اور تعاون کی تنظیم چلانے والے عبدالغفور کا کہنا ہے کہ ملک بدریاں پیسے کے مکمل ضیاع کے سوا اور کچھ نہیں۔ غفور کے مطابق یورپی ممالک سے ڈی پورٹ کیے گئے ایسے نصف سے زیادہ مہاجرین جنہیں وہ جانتا ہے، یورپ بدر ہونے کے تین ماہ کے اندر دوبارہ افغانستان چھوڑ کر چلے گئے۔