1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا، یونان

شمشیر حیدر کے این اے
6 اگست 2017

یونانی وزیر برائے مہاجرین یوانِس موزالاس کا کہنا ہے کہ سن 2011 کے بعد پہلی مرتبہ ’ڈبلن ضوابط‘ کے تحت جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2hm6j
تصویر: Picture alliance/dpa/H. Schmidt/dpa-Zentralbild

اس بات کی تصدیق یونانی وزیر برائے مہاجرین یوانِس موزالاس نے ہفتہ پانچ اگست کے روز جرمنی کے عوامی نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کی۔ اس فیصلے پر فوری طور پر ردِ عمل بھی دیکھا گیا۔ یورپ میں مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی تنظیم ’پرو ازُول‘ نے اس فیصلے کو ’اخلاقی طور پر ایک ناجائز عمل‘ قرار دیا ہے۔

یونان میں سیاسی پناہ کے قانون پر ایک نظر

یونان: جعلی پاسپورٹ رکھنے والے پاکستانیوں سمیت متعدد گرفتار

ڈبلن ضوابط کے تحت ملک بدریوں کا اطلاق ایسے تارکین وطن پر کیا جائے گا جو مارچ 2017 کے بعد یونان سے نکل کر پناہ کی تلاش میں جرمنی یا یورپی یونین کے کسی دوسرے رکن ملک پہنچے ہیں۔ جرمنی سے سن 2011 کے بعد پناہ کے متلاشی کسی غیر ملکی کو ملک بدر کر کے واپس یونان نہیں بھیجا گیا۔ ڈبلن ضوابط پر عمل درآمد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ پناہ کا ناقص نظام قرار دیا جاتا ہے۔

ڈبلن ضوابط کہلانے والے اس یورپی معاہدے کے مطابق کوئی بھی غیر ملکی صرف اسی ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرا سکتا ہے، جس کے ذریعے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوا ہو۔ عام طور پر سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے زیادہ تر تارکین وطن اٹلی اور یونان ہی پہنچتے ہیں۔

جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ نے اے آر ڈی کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ڈبلن ضوابط پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ یورپی کمیشن کی دسمبر سن 2016 میں جاری کی جانے والی ہدایات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق رواں برس جولائی کے اواخر تک قریب چار سو تارکین وطن کو جرمنی سے ملک بدر کر کے یونان بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس بارے میں یونان کو باقاعدہ درخواست بھی کر دی گئی ہے۔

یونانی وزیر یوانِس موزالاس نے اے آر ڈی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ یونان کو یورپی یونین کے دیگر ارکان کی جانب سے دباؤ کا سامنا تھا، جس کے بعد ایتھنز حکومت نے ڈبلن ضوابط پر دوبارہ عمل درآمد کرنے کی حامی بھر لی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ ان ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کو دکھانا چاہتی ہیں کہ وہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’پرو ازُول‘ کے ایک ترجمان کارل کوپ نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اے آر ڈی کو بتایا، ’’یونان میں صورت حال پہلے ہی تباہ کن ہے، کئی مہاجرین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ یونان کو دیگر یورپی ممالک سے مزید تارکین وطن کو ملک بدر کر کے واپس یونان بھیجنے کی نہیں بلکہ وہاں پہلے سے موجود مہاجرین کی مدد کے لیے یورپی امداد کی ضرورت ہے۔‘‘

یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس اوراموپولوس نے ڈبلن ضوابط کے تحت مہاجرین کی یونان واپسی کا دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ڈبلن ضوابط ناکارہ ہیں، لیکن یہ اس وقت تک نافذ رہیں گے جب تک ہم نئے ضوابط طے نہیں کر لیتے۔‘‘ یورپی یونین رواں برس کے اختتام سے قبل یورپ میں پناہ کے حصول کے لیے نئے ضوابط نافذ کرنا چاہتی ہے۔

پاکستانی تارکین وطن کی واپسی، یورپی یونین کی مشترکہ کارروائی

ساٹھ پاکستانی تارکین وطن یونان سے واپس ترکی بھیج دیے گئے

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے