1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: ’غلط لوگوں کو ملک بدر کیا جا رہا ہے‘

30 مارچ 2017

جرمنی نے سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ ایک جرمن سیاستدان رچرڈ آرنلڈ کے مطابق اس امر پر کوئی توجہ نہیں دے رہا کہ ملک بدری کی فہرستوں میں شامل بہت سے لوگ اس ملک میں رچ بس چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2aKzz
Deutschland Abschiebung von Asylsuchenden
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer

رچرڈ آرنلڈ جنوبی جرمن شہر شویبِش گیمُنڈ کے میئر ہیں اور ان کا تعلق چانسلر میرکل کی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ ملک بدری کے حوالے سے مختلف جرمن صوبوں کے مابین ایک طرح کی مقابلہ بازی شروع ہو چکی ہے، ’’میرے خیال میں یہ سب کچھ بہت عام انداز میں، سوچے سمجھے بغیر اور بہت تیزی سے کیا جا رہا ہے۔‘‘

Richard Arnold, Oberbürgermeister von Schwäbisch Gmünd
جن پناہ گزینوں نے جرمن نظام کا حصہ بننے کی کوشش کی ہے، انہیں ’ناکام‘ قرار دے کر جرمنی سے نکالا نہیں جانا چاہیے، رچرڈ آرنلڈتصویر: Stadt Schwäbisch Gmünd

آرنلڈ کے بقول اس وقت جرمنی میں ایسے تقریباً سوا تین لاکھ سیاسی پناہ گزین ہیں، جنہیں ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے بہت سے گزشتہ چار پانچ برسوں سے جرمنی میں رہ رہے ہیں اور معاشرے میں ضم بھی ہو چکے ہیں۔’’اب معاشرے کا حصہ بن جانے والے ان افراد کو نکالا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں حکومت کو مہاجرین کے مابین فرق رکھنا چاہیے کیونکہ اس طرح معاملات آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔‘‘

رچرڈ آرنلڈ نے مزید کہا کہ جیسے ہی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد جرمنی آنا شروع ہوئی، تو اس کے ساتھ ہی ضلعی سطح پر اور عوام کی جانب سے بھی ان مہاجرین کے سماجی انضمام کے لیے تمام تر کوششیں کی گئیں، ’’اب جو لوگ معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں، انہیں واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جن پناہ گزینوں نے جرمن نظام کا حصہ بننے کی کوشش کی ہے، انہیں ’ناکام‘ قرار دے کر جرمنی سے نکالا نہیں جانا چاہیے۔

رچرڈ آرنلڈ نے اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں رچ بس جانے والے اکثر مہاجرین کو حکام ملک سے نکل جانے کے لیے ایک ہفتے یا ایک مہینے تک کا وقت دیتے ہیں۔ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع بھی کرتے ہیں لیکن اکثر ان کی درخواستوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔