1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: مسلمان استانی کا اسکارف کی پابندی کے خلاف مقدمہ

Charlotte Potts / امجد علی14 اپریل 2016

ایک مسلمان استانی نے جرمن دارالحکومت برلن کے اسکولوں میں سر پر اسکارف باندھنے کی پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ یہ پابندی ممکنہ طور پر جرمن آئین سے متصادم ہے۔ یہ قانونی تنازعہ وسیع تر اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IV6d
Symbolbild Deutschland Kopftuch
برلن کی لیبر کورٹ سے رجوع کرنے والی مسلمان استانی کا موقف یہ ہے کہ اُس کے اسکارف کی وجہ سے اُس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck

ایک مسلمان استانی نے پرائمری ٹیچر کے طور پر اپنی تعلیم و تربیت مکمل کرنے کے بعد جرمن دارالحکومت برلن میں ایک آسامی کے لیے درخواست دے دی۔ انٹرویو میں متعدد اسکولوں کے انچارج موجود تھے، جو یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ آیا وہ کلاس میں پڑھاتے وقت اپنا اسکارف اُتارنے کے بارے میں بھی سوچ سکتی ہے۔ اس مسلمان خاتون کا جواب نفی میں تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد اس خاتون کو جواب آ گیا کہ اُسے ملازمت دینا فی الحال ممکن نہیں ہے۔

اب اس استانی نے برلن کی لیبر کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ اُس کا موقف یہ ہے کہ اُس کے اسکارف کی وجہ سے اُس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس استانی کی خاتون وکیل مریم ہاشمی نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے بتایا:’’میری مؤکلہ کو اُس کی پیشہ ورانہ قابلیت اور مہارت کی بناء پر رَد نہیں کیا گیا۔ برلن میں آج کل اساتذہ کی جتنی زیادہ مانگ ہے، اُس کے پیش نظر یہ سوال پوچھنا ضروری ہے کہ کیوں قابل اور تربیت یافتہ افراد کو ملازمت نہیں دی جا رہی۔‘‘

دو عشروں سے زیرِ بحث موضوع

اس مقدمے کے ذریعے ایک ایسا موضوع سامنے آ رہا ہے، جس پر جرمنی میں گزشتہ دو عشروں سے قانونی اور سماجی سطح پر شدید بحث مباحثہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جزوی طور پر متعدد جرمن صوبوں میں استانیوں کے سر پر اسکارف باندھنے کی اصولی پابندی عائد کی جاتی رہی تھی لیکن پھر 2015ء کے اوائل میں وفاقی جرمن آئینی عدالت نے خاتون ٹیچرز کے حقوق کو مزید مستحکم بناتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ استانیوں کو سر پر اسکارف باندھنے سے صرف اُسی صورت میں منع کیا جا سکتا ہے جب اس سے اسکول کے اندر امن و امان میں خلل پڑتا ہو۔

اس کے برعکس برلن میں دس سال پرانے اُس قانون کو ہی لاگو رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا مقصد ریاستی غیر جانبداری کو نمایاں کرنا ہے اور جس کے تحت سرکاری اہلکار خواتین مثلاً اُستانیوں، پولیس افسران اور ججوں کے لیے کام کے دوران اسکارف استعمال کرنا منع ہے۔ اس کے پیچھے ایک سوچ یہ ہے کہ مذہبی علامات اسکول کے طلبہ کے ذہنوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔

Junge Muslime in Deutschland
بہت سی مسلمان خواتین کے نزدیک اسکارف ’فیشن کا بھی ایک حصہ ہو سکتا ہے‘تصویر: picture-alliance/dpa/A. Gebert

خاتون وکیل مریم ہاشمی کے مطابق اس قانون کے باعث مسلمان خواتین خاص طور پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنتی ہیں لیکن اس کا اطلاق ایک یہودی استانی پر بھی ہو گا، جو اپنی مخصوص مذہبی ٹوپی پہننا چاہتی ہے۔ تین سال پہلے مریم ہاشمی نے ایک ڈینٹسٹ کے ہاں معاون کے طور پر کام کرنے کی خواہاں ایک مسلمان خاتون کو زرِ تلافی کی ادائیگی کروائی تھی، جسے اسکارف کی ہی وجہ سے کام پر نہیں رکھا گیا تھا۔ ہاشمی کے مطابق اور بھی بہت سی مسلمان خواتین کو اسکارف کی وجہ سے ہی ملازمت نہیں مل پاتی۔

اسکارف مذہبی عدم رواداری کی علامت؟

جرمنی کی پیشہ ورانہ تنظیمیں بھی اس مقدمے میں گہری دلچسپی لے رہی ہیں۔ تعلیم و تربیت سے متعلق مرکزی جرمن تنظیم کے چیئرمین اُوڈو بَیک مان ایک زمانے میں خود بھی ایک ایسے اسکول میں استاد رہ چکے ہیں، جہاں مسلمان طالبعلم بھی بڑی تعداد میں پڑھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:’’روایت پسند گروپ اسکارف کے بارے میں جو سوچ رکھتے ہیں، اگر اُسے سنجیدگی سے لیا جائے تو اسکارف مذہبی عدم رواداری بلکہ خواتین دشمنی کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ جب استانیاں اسکارف پہنیں گی، تو مسلمان بچیوں پر بھی ایسا ہی کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سی مسلمان خواتین کے نزدیک اسکارف فیشن کا بھی ایک حصہ ہو سکتا ہے۔

Symbolbild Deutschland Kopftuch
’جب استانیاں اسکارف پہنیں گی، تو مسلمان بچیوں پر بھی ایسا ہی کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا‘تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen

برلن میں دائر کیے گئے مقدمے میں بھی اصل میں زرِ تلافی کی ادائیگی کا ہی مسئلہ ہے۔ اگر عدالت یہ فیصلہ دے دیاکہ اس استانی کو برابری کے عمومی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسترد کیا گیا تھا تو پھر اُسے زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی تنخواہ کے برابر رقم بطور زرِ تلافی مل سکتی ہے۔

دوسری طرف جج یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ برلن کا قانون خلافِ آئین ہے اور یوں ممکن ہے کہ وہ یہ معاملہ وفاقی جرمن آئینی عدالت کو بھیج دیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں یہ بھی امکان ہے کہ مقدمہ دائر کرنے والی خاتون کے ساتھ ساتھ دیگر مسلمان خواتین بھی آئندہ سر پر اسکارف کے ساتھ بچوں کو پڑھا سکیں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید