1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: مہاجرت کے نئے ضوابط

شمشیر حیدر
11 اکتوبر 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور اتحادی جماعت سی ایس یو نے ملک میں انسانی بنیادوں پر پناہ دیے جانے کی سالانہ حد مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ جرمنی میں مہاجرت کو منظم کرنے کے اس منصوبے کے اہم نکات کیا ہیں؟

https://p.dw.com/p/2ld21
Syrische Flüchtlinge in Deutschland
تصویر: picture alliance/dpa/S. Pförtner

آئندہ حکومت کے دوران حکمران جماعت سی ڈی یو اور سی ایس یو کے  مابین مہاجرت کے نئے جرمن ضوابط سے متعلق اتفاق گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار آٹھ اکتوبر کو طے پایا تھا۔ دونوں جماعتوں کے مابین مہاجرت سے متعلق ان ضوابط پر اتفاق کے بعد گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کیے جائیں گے۔ ان ضوابط کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

دو لاکھ تک سالانہ حد

آئندہ جرمنی میں انسانی بنیادوں پر سالانہ زیادہ سے زیادہ دو لاکھ غیر ملکیوں کو پناہ دی جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ دو لاکھ افراد کی اس حد میں مہاجرین، پناہ کے متلاشی افراد، ثانوی سطح پر تحفظ پانے والے، مہاجرین کے اہل خانہ اور نقل مکانی کے پروگرام کے تحت جرمنی آنے والے افراد کو شمار کیا جائے گا۔ سالانہ شمار میں جرمنی سے ملک بدر کر دیے جانے والے افراد کی تعداد اس سے منفی بھی کی جائے گی۔

جرمنی میں پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں کتنا وقت لگتا ہے؟

اس فیصلے کو ’مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ سالانہ حد‘ کا نام نہیں دیا گیا تاہم در حقیقت عملی طور پر یہ مہاجرین کی حد مقرر کرنے کے ہی مترادف ہے۔ سی ایس یو ایسے مطالبات انتخابات سے قبل بھی کرتی رہی تھی تاہم چانسلر میرکل ہر مرتبہ اس قسم کے کسی اقدام کی مخالفت کرتی رہی تھیں۔

بحرانی صورت میں استثنا

کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان تھوماس کروئیزر نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں بتایا کہ ہنگامی صورت حال میں مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ حد کا قانون لاگو نہیں ہو گا۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر جرمنی کے کسی ہمسایہ ملک میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو ایسی صورت میں سالانہ دو لاکھ مہاجرین کی حد مقرر نہیں کی جائے گی۔

پناہ کے قوانین کی خلاف ورزی: یورپی کمیشن کی جرمنی کو وارننگ

سیاسی پناہ کے حق کا قانون برقرار

جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے حق کے قانون میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا۔ بنیادی جرمن قانون کے آرٹیکل سولہ میں سیاسی پناہ کے حصول کے حق کو یقینی بنایا گیا ہے اور چانسلر میرکل کا کہنا تھا کہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور ایسے افراد سے، جن کی جانوں کو اپنے وطن میں خطرات لاحق ہوں، یہ بنیادی حق نہیں چھینا جا سکتا۔

ملک بدری سے قبل حراستی مراکز کا قیام

جرمنی میں مزید ایسے مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے گا جہاں پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ ہونے تک پناہ کے متلاشی افراد کو رہائش فراہم کی جائے گی۔ درخواست کی منظوری کی صورت میں انہیں جرمنی میں کہیں بھی جانے کی اجازت ہو گی۔ تاہم پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو خصوصی حراستی مراکز منتقل کر دیا جائے گا، ایسے افراد ان حراستی مراکز سے یا تو رضاکارانہ طور پر وطن واپس جا سکیں گے، یا پھر انہیں جبری طور پر ملک بدر کر دیا جائے گا۔

جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع

اس سال اب تک مزید کتنے پاکستانی جرمنی پہنچے؟

ملک بدری کے لیے آبائی وطنوں سے مزید تعاون

پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے آبائی وطنوں اور ٹرانزٹ ممالک کے ساتھ باہمی تعاون میں اضافہ کیا جائے گا۔ ٹرانزٹ ممالک کے اشتراک کے ساتھ پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی آبائی وطنوں کی جانب واپسی یقینی بنائی جائے گی۔ اس ضمن میں مہاجرین سے متعلق یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے شدہ معاہدے کو بطور ماڈل اپنایا جائے گا۔

ہنر مند تارکین وطن کو ترجیح

جرمنی میں ایسے ہنرمند تارکین وطن کو، جن کے روزگار کی منڈی تک رسائی کے امکانات زیادہ ہوں، ترجیحی بنیادوں پر پناہ دی جائے گی۔ اس ضمن میں تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ تارکین وطن کے ہنرمند ہونے کو کس معیار پر پرکھا جائے گا۔

ان نکات کے علاوہ ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں مزید ممالک کی شمولیت، مہاجرت کی وجوہات کا خاتمہ اور یورپی سطح پر پناہ کے مشترکہ قوانین کے لیے مزید اقدامات کیے جانے پر بھی اتفاق کر لیا گیا ہے۔

جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا، یونان

مہاجرین کے بحران سے شینگن زون میں ہلچل

یورپ جانے کا شوق، ’پاکستانی مہاجرین بھی پھنس گئے‘