1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں بھی مہاجرین کی قیمتی اشیاء اور نقد رقم ضبط

شمشیر حیدر21 جنوری 2016

ڈنمارک اور سوئٹزرلینڈ کو تارکین وطن کے اثاثے ضبط کرنے کا قانون بنانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ جرمنی میں ایسے اقدامات پہلے ہی سے کیے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Hhw3
Deutsch-Österreichische Grenze Flüchtlinge Winter
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

جرمنی کے کثیر الاشاعت روزنامہ ’بلڈ‘ نے آج جمعرات 21 جنوری کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جرمن حکام تارکین وطن سے ان کی نقد رقم ضبط کر رہے ہیں۔ بلڈ کے مطابق جرمنی کی وفاقی ریاستوں، باویریا اور باڈن وُرٹمبرگ میں آنے والے مہاجرین سے ایک خاص حد تک نقد رقم لی جا رہی ہے۔

جرمنی کی وفاقی لیبر منسٹری نے بھی آج تصدیق کی ہے کہ تارکین وطن کے لیے سماجی امداد جیسی سہولیات فراہم کرنے سے قبل ضروری ہے کہ مہاجرین کے ذاتی اثاثے استعمال میں لائے جائیں۔

جرمنی کی وفاقی ریاست باویریا کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے، ’’جرمنی آنے کے بعد ابتدائی استقبالیہ مراکز میں پناہ گزینوں کے ہمراہ لائے گئے سامان میں دستاویزات، قیمتی اشیاء اور نقد رقم تلاش کی جاتی ہے۔‘‘

باویریا آنے والے تارکین وطن کے اثاثوں اور نقد رقم کی کل مالیت اگر 750 یورو سے زیادہ ہو تو انہیں ضبط کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ صوبہ باڈن وُرٹمبرگ 350 یورو اور صوبہ ہیسن میں دو سو یورو سے زائد مالیت کی اشیاء اور نقد رقم ضبط کر لی جاتی ہے۔

مختلف صوبوں میں اثاثوں کی مالیت کی حد اس لیے مختلف ہے کیوں کہ جرمنی میں پناہ گزینوں کے لیے سماجی امداد کے قوانین صوبے کی سطح پر بنائے جاتے ہیں۔ جرمنی آنے والے نئے تارکین وطن کو بے روزگار جرمنوں کو دیے جانے والے بے روزگاری الاؤنس Hartz IV کی نسبت کم رقم دی جاتی ہے۔ جبکہ تسلیم شدہ مہاجرین کے لیے یہ رقم جرمنوں کے برابر ہے۔ لیکن اس سے قبل انہیں اپنے پاس موجود رقم اور اثاثوں کو زیر استعمال لانا ہوتا ہے۔

بِلڈ کی رپورٹ کے مطابق مختلف صوبوں میں تارکین وطن کے اثاثے ضبط کرنے کا طریقہ کار بھی مختلف ہے۔ باویریا اور باڈن وُرٹمبرگ میں پولیس مہاجرین کی جامہ تلاشی لے کر ان کے پاس موجود نقد رقم ضبط کرتی ہے۔ جبکہ صوبہ ہیسن کی وزارت انضمام کے مطابق وہاں تارکین وطن کی رجسٹریشن کے دوران ان کی اقتصادی صورت حال کے بارے میں ان سے انٹرویو اور تحریری بیان لیا جاتا ہے۔

جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ نے اس ضمن میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ نقد رقم ضبط کرنے کا معاملہ وفاقی پولیس کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ صوبائی مسئلہ ہے۔

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والی جرمنی کی وفاقی کمشنر برائے مہاجرت، ایڈان اُوزوس نے روزنامہ بلڈ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کو سماجی مدد لینے سے قبل زیور اور دیگر قیمتی اشیاء کو بیچ کر گزارا کرنا چاہیے۔ اُوزوس کے مطابق تارکین وطن کو بے روزگار جرمنوں سے بہتر سہولیات نہیں دی جانا چاہیئں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید