1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مصری خاتون کے قتل پر مصر سراپا احتجاج

رپورٹ : کشور مصطفیٰ ، ادارت: عابد حسین9 جولائی 2009

جرمن شہر ڈرزڈن میں مصری خاتون کے قتل کی ہو لناک واردات سے جرمنی کے اندر بھی تاسف کی فضاء قائم ہے۔ اُدھر مصر میں یہ میڈیا اور عوام میں آج کل انتہائی اہمیت کا حامل موضوع ہے۔

https://p.dw.com/p/Ik1W
مقتولہ ماروا الشیربینی کی شادی کے وقت کی تصویرتصویر: dpa

مصری حکام نے کہا ہے کہ وہ جرمن شہر ڈرزڈن کی عدالت کے ایک ہال میں ایک حاملہ مصری خاتون پر خنجر سے کئے جانے والے ہلاکت خیز حملے کی چھان بین کے لئے مصری مستغیث روانہ کریں گے۔

مصر کے شمالی شہر الکزنڈریا کے پروسیکیوٹر یا مستغیث جرمن صوبے Saxony میں گزشتہ ہفتے رونماء ہونے والے اُس بہیمانہ واقع کی تفتیشی کارروائی میں شامل ہونگے۔ 32 سالہ مصری حاملہ خاتون ماروا الشیربینی پر پہلی جولائی کو جرمنی کے شمال میں واقع شہر ڈرزڈن کی ایک عدالت کے ہال میں ایک 28 سالہ روسی نژاد جرمن Axel W نے خنجر سے حملہ کیا تھا۔

الشیربینی عدالت میں اس روسی نژاد جرمن کے خلاف مقدمہ دائر کرنے آئی تھیں کیونکہ Axel W نے بچوں کے ایک پلے گراؤنڈ میں بچوں کے کھلونے کے بارے میں ایک جھگڑے کے دوران انہیں غیر شائستہ اور تضحیک آمیز القاب سے نوازا تھا اور انہیں دہشت گرد کہا تھا۔

Trauerzug für Marwa El Sherbiny
ماروا الشیربینی کا سفرِ آخرتتصویر: dpa

32 سالہ مصری خاتون اور ایک بچے کی ماں عدالت میں خنجر کے حملے سے بری طرح زخمی ہوئیں اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 6 جولائی کو جاں بحق ہو گئیں۔ اُنہیں الکزنڈریا میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

ماروا الشیربینی کی موت کی خبر اِس وقت مصری میڈیا کا مرکزی موضوع بنی ہوئی ہے۔ منگل کے روز قاہرہ میں جرمن سفارتخانے کے باہر احتجاجی مظاہروں کا انعقاد ہوا۔

قاہرہ متعینہ جرمن سفیر Bernd Erbel نے اس خوفناک واقعہ کی بارہا مذمت کی۔ انہوں نے مصری عوام کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ان افسوسناک لمحوں میں، وہ واضح کرتے ہیں کہ اس بھیانک جرم کی مذمت تمام جرمن قوم کر رہی ہے۔ یہ معاملہ اب عدالت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

Trauer um Marwa El Sherbiny
مقتولہ ماروا الشیربینی کے والدتصویر: dpa

جرمن سفیرکے مطابق ملزم کو کڑی سزاملنی چاہیے۔ انکے خیال میں مجرم کسی طور سے بھی جرمن عوام کا نمائندہ نہیں ہو سکتا کیونکہ جرمن عوام تہہ دل سے مصر کے ساتھ ہے اور مصری ثقافت کا احترام کرتے ہیں۔ کوئی دوسرا جرمن سیاستدان اس وقت جرمنی اور مصر کے مابین تعلقات میں ممکنہ طور پر تلخی کا باعث بننے والے اس واقعے پر جرمن سفیر Erbel سے بہتر بیان نہیں دے سکتا، جو عربی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ بطور سفیر قاہرہ میں گزشتہ چند سالوں سے مقیم Erbel بارہا یہ بیان دے چکے ہیں کہ عرب اور اسلام مخالف جذبات سے انکا دور دور واسطہ نہیں۔ Bernd Erbel دریائے نیل پر واقع عرب ملک مصر میں نا صرف مقبول ہیں بلکہ انہیں مصری باشندوں کا بھرپور اعتماد حاصل ہے۔

مصر میں یہ تاثر عام ہے کہ جہاں ملک اور قوم کے اِمیج کا سوال ہو وہاں اس قسم کے مجرمانہ واقعہ کو زیادہ ہوا نہیں دی جاتی۔

اکثریتی مصری باشندوں کا ماننا ہے کہ ڈرزڈن کے اس مجرمانہ واقعے کو جرمنی میں دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک مصری روزنامے المصری الیوم میں چھپنے والے ایک آرٹیکل کے مطابق ، مصری خاتون کی موت کے بعد جرمن دارلحکومت برلن میں منعقد ہونے والی ایک سوگوار تقریب میں کسی جرمن سیاستدان کے اندر شرکت کرنے کی اخلاقی جرات نہیں تھی۔ یہ مجرمانہ حملہ کسی ایک فرد پر نہیں ہوا۔

قاہرہ حکومت سے نزدیک تصور کیے جانے والے مصری اخبار الاحرام میں جو تبصرہ شائع ہو اُس میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ اس قسم کے واقعہ کا تعلق اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت سے ہے۔ دین اسلام سے خوف کی جڑیں جرمن معاشرے میں مضبوط تر ہوتی جا رہی ہیں۔ مصر کے سرکاری ٹیلی ویژن پر بیان دیتے ہوئے ایک نوجوان مصری خاتون کا کہنا تھا کہ آخر کس طرح ممکن ہوا کہ ایک مسلمان خاتون، جو ہیڈ اسکارف پہنتی تھیں انہیں دہشت گرد سمجھا گیا۔ جرمنی میں لوگ آزادی کی بات کرتے ہیں، وہ جاننا چاہتی ہے کہ اُن کی آزادی کہاں ہے؟ نہ وہ دہشت گرد ہیں نہ ہی کبھی بنیں گے۔ خاتون کا مزید کہنا تھا کہ اپنی عزت کے ساتھ ساتھ ساتھ مسلمان ہونے کے ناطے انہیں اپنے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ وہ اس طرح ملبوس ہوں گے جس طرح اُن کا جی چاہے گا اور معاشرے میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔

دریں اثناء ملزم Axel W کو قتل کے شک کے سبب گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اُدھر برلن کے سرکاری ذرائع کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل اطالوی شہر لاکیلا میں جاری جی 8 سمٹ کے دوران غالباً مصری صدر حسنی مبارک سے ایک ملاقات میں اس موضوع پر بات کرنے والی ہیں۔