1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مُردوں کی تدفین، بڑھتا ہوا مسئلہ

امتیاز احمد12 جنوری 2016

آج کل زیادہ تر جرمن چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد انہیں جلا دیا جائے اور راکھ فطرت کے نزدیک کسی جگہ پر دفن کر دی جائے۔ تاہم راکھ کے زمین اور ماحول پر اثرات واضح نہیں جبکہ قبرستانوں کی اہمیت بھی کم ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hbxo
Aschekapsel vor einen Sarg am Feuerofen
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی میں کوئی بھی شہری اگر چاہے تو اپنی زندگی میں ہی یہ انتخاب کر سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کی تدفین کیسے کی جانی چاہیے۔ ایک امکان یہ ہے کہ مردے کو تابوت میں دفن کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ لاش کو جلا کر راکھ ایک چھوٹے سے مرتبان (خاک دان) میں ڈال کر کہیں دفن کر دی جائے۔ آج کل جرمن باشندوں کی اکثریت اپنی لاشیں جلائے جانے کے حق میں فیصلے کر رہی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ساٹھ فیصد تک مُردوں کی لاشیں جلائی جا رہی ہیں اور راکھ کو زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مرنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی راکھ کسی باقاعدہ قبرستان کی بجائے کسی ایک جگہ پر دفن کی جائے، جو فطرت کے قریب تر ہو۔ ایسے افراد کی خواہش کے مطابق ان کی راکھ جنگلوں میں، درختوں کے قریب، زیر آب یا پھر خوبصورت اور سرسبز باغات میں دفن کر دیا جاتی ہے۔

اس سلسلے میں سب سے زیادہ رجحان راکھ کی جنگل میں تدفین کا ہے۔ سن دو ہزار ایک میں جرمن شہر کاسل میں ایسا پہلا جنگل بنایا گیا تھا، جہاں مُردوں کی راکھ دفن کی جا سکے اور اب پورے ملک میں ایسے جنگلوں کی تعداد ایک سو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

مُردوں کی راکھ کے ماحول پر اثرات

جرمنی کی وفاقی ماحولیاتی فاؤنڈیشن (ڈی بی یو) کے ماہر فرانس پیٹر ہائیڈن رائش کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مستقبل میں ایسے جنگلوں کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔‘‘ ان کے اندازوں کے مطابق اب سالانہ 45 ہزار انسانی لاشوں کی راکھ کی تدفین کسی نہ کسی درخت کے پاس کی جا رہی ہے۔

ناقدین کہتے ہیں کہ راکھ کی تدفین ماحول کے لیے خطرناک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ راکھ سے خطرناک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے اور اس کے زمین اور زیر زمین پانی پر اثرات پڑتے ہیں۔ لیکن کِیل یونیورسٹی کے ارضی علوم کے محقق رائنر ہارن کا کہنا ہے، ’’فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ اس راکھ کے طویل المدتی اثرات کیا ہوں گے۔‘‘

بھاری دھاتوں کا ارتکاز

لاش تابوت میں رکھ کر دفن کی جائے یا پھر راکھ خاک دان میں، دونوں ہی طریقوں سے انسانی جسم کی باقیات کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن انسانی جسم کی راکھ میں بھاری دھاتوں تانبے، زنک، کیڈمیم، سیسے اور سنکھیے کی مقدار ایک ساتھ جمع ہو جاتی ہے۔ پروفیسر رائنر ہارن کے مطابق روایتی طریقے کے مطابق انسانی جسم میں موجود یہ دھاتیں زمین کے بڑے حصے پر پھیلتی ہیں اور ان کی زیادہ تر مقدار ایک جگہ جمع نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر کسی لاش کی لمبائی اور چوڑائی کے مطابق تو زمین کا رقبہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ دھاتیں زیادہ رقبے پر نہیں پھیلتیں لیکن راکھ کا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ ایک مخصوص جگہ پر یہ راکھ دفن کرنے سے وہاں کی زمین پر اس کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے۔

ان تمام امور کے علاوہ مردوں کو جلانے اور قدرتی مقامات پر دفن کرنے سے قبرستان بھی متاثر ہو رہے ہیں کیوں کہ اس طرح روایتی قبرستانوں کی وقعت اور اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔

جرمنی میں اس موضوع پر جاری بحث اب جذباتی کی بجائے حقائق پر مبنی دلائل کا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ وفاقی ماحولیاتی فاؤنڈیشن نے سفارش کی ہے کہ اس معاملے میں ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی جائے۔ اس رپورٹ میں جائزہ لیا جائے کہ مُردوں کی راکھ کے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اور اگر منفی اثرات نہیں تو کونسا طریقہ کار بہتر ہوگا۔ اس بارے میں سفارشات مستقبل قریب میں مرتب کی جائیں گی۔