1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مہاجرین کی رہائش گاہوں پر حملے تین ماہ میں دوگنا

مقبول ملک7 نومبر 2015

جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ملک میں لاکھوں نئے پناہ گزینوں کی آمد کے بعد مہاجرین کی رہائش گاہوں پر کیے جانے والے حملوں کی شرح سال رواں کی دوسری سہ ماہی سے لے کر تیسری سہ ماہی تک کے عرصے میں دوگنا ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/1H1VT
Berlin Reinickendorf- Wittenau Brand bei Flüchtlingsunterkunft
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka

جرمن شہر زاربروکن سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس سال اپریل سے لے کر جون تک کی سہ ماہی میں ملک میں پناہ گزینوں کے شیلٹر ہاؤسز پر کیے گئے رجسٹرڈ حملوں کی تعداد 136 رہی تھی۔ یہ حملے دیگر صورتوں کے علاوہ ایسی رہائش گاہوں میں آتش زنی کے واقعات، پٹرول بم یا دھماکا خیز مواد پھینکنے یا پھر مہاجرین کو جسمانی طور پر زخمی کر دینے کی صورت میں بھی کیے گئے۔

اے ایف پی کے مطابق سال رواں کی تیسری سہ ماہی (جولائی سے ستمبر تک) کے درمیان ان حملوں کی سہ ماہی تعداد 136 سے بڑھ کر 274 ہو گئی تھی۔ زاربروکن سے شائع ہونے والے اخبار ’زاربروکر سائٹُنگ‘ نے اپنی ہفتہ سات نومبر کی اشاعت میں لکھا کہ یہ اعداد و شمار وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ میں میرکل حکومت کی طرف سے بائیں بازو کی جماعت ’دی لِنکے‘ سے تعلق رکھنے والی ایک رکن اُولا ژَیلپکے کی طرف سے ایوان میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتائے گئے۔

ان اعداد و شمار کے مطابق ان تین مہینوں کے دوران ملک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرنے والے نئے نازیوں کی تعداد میں بھی واضح اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس سال کی دوسری سہ ماہی میں ایسے نئے نازی مظاہرین کی تعداد 880 تھی، جو تیسری سہ ماہی میں بڑھ کر 5800 ہو گئی۔

اسی حوالے سے ’دی لِنکے‘ سے تعلق رکھنے والے برلن میں وفاقی پارلیمان کی رکن اُولا ژَیلپکے نے اخبار ’زاربروکر سائٹُنگ‘ کو بتایا کہ دائیں بازو کے نئے نازی انتہا پسندوں نے مہاجرین کی آمد کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو اس سب سے بڑے موضوع کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے ممکنہ ہم خیال عناصر کو تحریک دینا چاہتے ہیں۔

Brandanschläge auf Flüchtlingsunterkünfte 2015 Englisch

بائیں بازو کی اس رکن پارلیمان نے یہ بھی کہا کہ ان نئے نازیوں کی تشدد پر بھرپور آمادگی بھی بہت تشویش ناک ہے۔ ان کے بقول اس بارے میں وفاقی حکومت کے اعداد و شمار اس لیے بھی مکمل نہیں ہیں کہ مہاجرین کی جن رہائش گاہوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا، ان کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں سے کتنی خالی تھیں اور کتنے شیلٹر ہاؤسز میں حملوں کے وقت پناہ گزین بھی مقیم تھے۔

اُولا ژَیلپکے نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ تفتیشی حکام نے جولائی سے لے کر ستمبر تک کیے گئے ان 274 حملوں یا اس سے پہلے کی سہ ماہی میں 136 وارداتوں میں سے کتنے واقعات کو دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے حملوں کے طور پر ریکارڈ کیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں