1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ویت نامی باشندوں کی تعداد میں اضافہ

رپورٹ:شہاب احمد صدیقی، ادارت:مقبول ملک15 جون 2009

گزشتہ برسوں کے دوران جرمنی ميں غير قانونی طور پرمقيم ويت نامی شہريوں کی تعداد ميں بہت زيادہ اضافہ ہوگيا ہے۔

https://p.dw.com/p/I94f
تصویر: AP

گزشتہ برسوں کے دوران جرمنی ميں غير قانونی طور پرمقيم ويت نامی شہريوں کی تعداد ميں بہت زيادہ اضافہ ہوگيا ہے۔ کيونکہ ان ميں سے اکثر کے پاس اقامتی ويزا نہيں ہے اور انہيں ملازمت کی اجازت بھی نہيں ہے، اس لئے ان منں سے بعض جرائم ميں ملوث ہوجاتے ہيں۔اسی طرح کا مسئلہ پولينڈ اور چيک جمہوريہ ميں بھی ہے۔

جرمن دارالحکومت برلن کے علاقے Marzahn ميں جو ويتنامی مقيم ہيں،ان ميں ايک طرح کا دوطبقاتی معاشرہ بن چکا ہے۔ايک طرف تو کاروباری،اور تاجر ہيں،جن ميں سے اکثر کا تعلق سابق مشرقی جرمنی سے ہے اور جنہوں نے بڑی محنت کرکے جرمنی ميں برسوں کے بعد ايک پکا ويزا اور معمولی سی معاشی کاميابی حاصل کرلی ہے۔

انہيں پوليس والوں کے نمودار ہونے پر کسی پريشانی کے بجائے خوشی ہوتی ہے۔دوسری طرف غير قانونی طور پر جرمنی ميں مقيم ويت نامی ہيں،جو پوليس کو ديکھتے ہی حواس باختہ ہو جاتے ہنں اور بعض اوقات پر خطر انداز ميں سڑکوں اور ٹرام کی پٹڑيوں کو پھلانگتے ہوئے بھاگ نکلتے ہيں۔ان ميں سے اکثر غنر قانونی طور پر کاروبار کرتے ہيں۔يہ جرمنی ميں تارکين وطن کی ايسی نئی نسل ہے جس کا اس ملک ميں کوئی مستقبل نہيں ہے۔برلن کے اس محلے کی،ويت ناميوں کی امداد کی ايک تنظيم سے منسلک تامارا نے کہا ،

ويت نام سے باہر سفر کی آزادی اورجرمنی ميں ديوار برلن کے خاتمے کے بعد بہت سے ويت نامی يورپ ميں آئے ہيں۔اصولی طور پر ہمارے لئے يہ بہتر ہوتا کہ يہ لوگ اپنے ملک ہی ميں رہتےاور اس قسم کے مہم جويانہ سفر نہ کرتے جو بہت خطرناک ہيں اور لوگوں کو مقروض اور تباہ حال بنا ديتے ہيں۔

جرمنی اور يورپ آنے والے ويت ناميوں نے ايجنٹوں کے سنہری وعدوں پر انہيں بڑی رقوم ادا کی ہيں۔اس کے بعد انہوں نے يہاں سياسی پناہ کی درخواستيں داخل کزائی ہيں۔ليکن پيسے کی ضرورت اور کام کی ممانعت انہيں جلد ہی غير قانونی کاروبار اور پھر جيل اور ملک بدر کئے جانے کے مرحلے تک پہنچا ديتی ہے۔اس کے باوجود جرمنی اور اس کے ہمسايہ ملکوں پولينڈ اور چيک جمہوريہ ميں ويت نام سے آنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

Global Media Forum Teilnehmer Günter Nooke
گنٹرنوکےتصویر: GMF

جرمنی ميں ملک بدر کئے جانے والوں کی ہوائی اڈے تک غير معمولی اجتماعی منتقلی پر پناہ گزينوں کی امدادی تنظيموں کی طرف سے احتجا جات کئے گئے ہيں۔برلن کی ،پناہگزينوں کی کونسل نے توايمنيسٹی انٹر نيشنل کی اس رپورٹ کا حوالہ تک ديا ہے جس کے مطابق ويت نام ميں اذيت رسانی،سياسی قيد اور سزائے موت بہت عام ہيں۔

جرمن حکومت کے ، انسانی حقوق کے ذمے دار اہلکار Günter Nooke نے کہا ،ويت نام ميں انسانی حقوق کی صورتحال مکمل طور پر غير اطمينان بخش ہے۔ميرے خيال منں جن لوگوں کو ويت نام ميں تعاقب يا قيد کئے جانے کا خطرہ ہے ، انہيں ملک بدر کرکے وہاں نہيں بھيجا جاناچاہئے۔

اس وقت جرمنی ميں پچاسی ہزار ويت نامی مقيم ہيں۔ يہ معلوم نہيں کہ ان ميں سے کتنے غير قانونی طور پر يہاں رہ رہے ہيں۔

جو ويتنامی تارکين وطن جرمنی ميں بہت عرصے سے مقيم ہيں، ان کے بچے امريکہ مقنم ويت ناميوں ہی کی طرح بہت محنتی سمجھے جاتے ہيں اور وہ تعليمی ميدان ميں عموما دوسرے تارکين وطن گروپوں بلکہ اپنے ساتھی جرمن طلباء سے بھی آگے ہيں۔