1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں RAF کی دہشت گردی، کئی راز افشا ہونے کا امکان

3 ستمبر 2009

بائیں بازو کی دہشت گرد تنظیم آر اے ایف یعنی ریڈ آرمی فیکشن نے ستر کے عشرے کے آغاز سے ہی وفاقی جمہوریہء جرمنی کے خلاف اپنی مسلح جدوجہد شروع کر دی تھی۔ اِس دوران اِس تنظیم کے دہشت پسندانہ حملوں میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔

https://p.dw.com/p/JOY2
اِس تنظیم کی ایک سابقہ دہشت گرد ویرینا بیکر کو گرفتار کر لیا گیا ہےتصویر: picture alliance / dpa

اس دہشت گرد تنظیم کے حملوں ہلاک ہونے والوں میں وفاقی جرمن پبلک پراسیکیوٹر زیگفریڈ بُوباک بھی شامل تھے، جنہیں سن 1977ء میں اُن کے دو ساتھیوں کے ہمراہ گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اب 32 برس بعد اِسی حملے میں ممکنہ طور پر ملوث ہونے کے شبے میں حال ہی میں اِس تنظیم کی ایک سابقہ دہشت گرد ویرینا بیکر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا ویرینا بیکر کے لئے کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ سن 1974ء میں برلن میں ایک برطانوی یاٹنگ کلب پر بم حملے میں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد سن 1977ء میں بیکر کو، جو آج کل ستاون برس کی ہے، عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم یہ سزا اُسے پبلک پراسی کیوٹر زیگفریڈ بُوباک اور اُس کے دو ساتھیوں کے قتل کی وجہ سے نہیں بلکہ گرفتاری کے وقت فائرنگ کرنے کے باعث سنائی گئی تھی۔ وہ بارہ سال تک جیل میں رہی، یہاں تک کہ اُس دور کے جرمن صدر رشارڈ فان وائتسیکر نے اُس کے لئے معافی کا اعلان کیا۔

آیا ویرینا بیکر پبلک پراسیکیوٹر بُوباک کے قتل میں بھی ملوث ہے، یہ قیاس آرائیاں شروع ہی سے کی جاتی رہیں۔ اگرچہ وہ ہتھیار اُس کے قبضے سے ملے تھے، جو قتل میں استعمال ہوئے لیکن قتل کے جرم میں سزا اوروں کو ہوئی۔ اب دوبارہ ویرینا بیکر کی گرفتاری کا جواز وفاقی جرمن دفترِ استغاثہ نے یہ بتایا ہے کہ جس خط کے ذریعے اِس قتل کی ذمہ داری کا اعتراف کیا گیا، اُس پر ویرینا بیکر کے ڈی این اے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔ ویرینا بیکر کی اتنی تاخیر سے گرفتاری کئی شکوک و شبہات کو بھی جنم دے رہی ہے۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا ماضی میں اِس کیس کے حوالے سے درحقیقت سارے حقائق منظرِ عام پر لائے گئے تھے۔ ذرائع ابلاغ کی وہ رپورٹیں اِن شکوک و شبہات کو اور ہوا دیتی ہیں، جن کے مطابق ویرینا بیکر ماضی میں آئینی تحفظ کے محکمے کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے اور اپنے دہشت گرد ساتھیوں کی مخبری کرتی رہی ہے۔ وفاقی جرمن دفترِ استغاثہ نے بُوباک کیس کے سلسلے میں آئینی تحفظ کے محکمے کی فائلیں ایک بار پھر دیکھنے کی درخواست دی ہے۔ 1982ء اور 2007ء کے بعد دی جانے والی اِس نوعیت کی یہ تیسری درخواست ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان سٹیفان پاریس کہتے ہیں: ’’استغاثہ اِن فائلوں کا مطالعہ کر کے وہ سب کچھ دیکھ تو سکتا ہے، جو اِن کے اندر درج ہے۔ تاہم اِن پر لگی پابندی کے باعث وہ اُنہیں کسی بھی طرح سے عدالتی کارروائی میں استعمال نہیں کر سکے گا۔‘‘

تاہم دفترِ استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ اِس بار صورتحال مختلف ہو گی۔ وزارتِ داخلہ کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ آئینی تحفظ کے محکمے کے رازوں پر پردہ ڈالے رکھنے کے مفاد کو ترجیح دیتی ہے یا اِس ریاستی مفاد کو کہ مجرموں کو اُن کے کئے کی سزا ملنی چاہیے۔ رائے عامہ جاننا چاہتی ہے کہ اِس سابقہ دہشت گرد نے ممکنہ طور پر کیا معلومات فراہم کیں اور آیا اِن معلومات کے لئے اُسے کوئی رقم وغیرہ بھی ادا کی گئی۔

1977ء میں قتل ہونے والے پبلک پراسی کیوٹر کے بیٹے مِشاعیل بُوباک کے مطابق اُسے اب یقین ہو چکا ہے کہ اُس کے باپ پر گولی ویرینا بیکر نے ہی چلائی تھی اور یہ کہ ریاستی اداروں کوہمیشہ اِس بات کا علم تھا۔

’’ایک وقت آیا، جب مَیں اِس سوچ کو دبا نہیں سکا کہ مجرم کو کسی نہ کسی طرح سے تحفظ فراہم کیا گیا۔ ایک اچھا تفتیش کار اتنی زیادہ غلطیاں نہیں کر سکتا۔‘‘

اِس طرح دہشت گردوں کے ساتھ اشتراکِ عمل کے سنگین الزامات کے بعد وزارتِ داخلہ پر خفیہ فائلیں منظرِ عام پر لانے کے لئے دباؤ بڑھ گیا ہے۔

رپورٹ : امجد علی

ادارت : کشور مصطفیٰ