1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: پہلی سہ ماہی میں شیلٹر ہاؤسز میں حملوں میں اضافہ

عاطف بلوچ5 اپریل 2016

رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں جرمنی میں پناہ کے متلاشی افراد کی رہائش گاہوں پر تقریباﹰ تین سو کے قریب حملے اور دیگر مجرمانہ نوعیت کے کارروائیاں کی گئیں۔ خدشہ ہے کہ اس سال ایسے حملوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IPfi
Deutschland Brand in geplanter Asylunterkunft in Baden-Württemberg
خدشہ ہے کہ اس سال ایسے حملوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/SMDG/Friebe

خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے شیلٹر ہاؤسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

منگل پانچ اپریل کے روز جاری کردہ ان اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تین مہینوں میں ایسے شیلٹر ہاؤسز پر مجرمانہ نوعیت کے دو سو بانوے حملے کیے جا چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران اوسطاﹰ فی دن تین سے زیادہ حملے ہوئے ہیں۔

یورپی ممالک کو درپیش مہاجرین کے بحران کے تناظر میں جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ برس جرمنی میں 1.1 ملین مہاجرین اور تارکین وطن پہنچے تھے۔ اس بحران کی وجہ سے جہاں یورپ کو انتظامی مسائل کا سامنا ہے وہیں جرمنی میں بھی مشکلات دیکھی جا رہی ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی پر انہیں نہ صرف سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ اب عوامی سطح پر بھی ان کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔

اسی تناظر میں جرمنی کے کچھ علاقوں میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھنے والے کچھ گروہ ایسے شیلٹر ہاؤسز کو نقصان پہنچانے کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، جہاں ان مہاجرین کو رہائش فراہم کرنا مقصود ہوتا ہے۔

Bautzen Brandanschlag auf geplantes Flüchtlingsheim
ان اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران اوسطاﹰ فی دن تین سے زیادہ حملے ہوئےتصویر: Getty Images/S. Gallup

گزشہ برس ایسے حملوں کی تعداد ایک ہزار انتیس تھی جبکہ سن 2014ء میں 199 اور سن 2013ء میں صرف 69 حملے ریکارڈ پر آئے تھے۔ تاہم رواں برس کے پہلے تین ماہ کے دوران ایسے حملوں میں اضافہ باعث تشویش قرار دیا جا رہا ہے۔

اگر جرمنی میں پناہ کے متلاشی افراد کے شیلٹر ہاؤسز پر اسی شدت اور تواتر سے حملے ہوتے رہے تو سال کے اختتام تک ان کی تعداد تقریباﹰ بارہ سو بھی ہو سکتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید