1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا افغان مہاجر ’ سابق طالبان جنگجو‘ تھا، مقدمے کا آغاز

صائمہ حیدر
27 اپریل 2017

جرمنی میں ہزاروں افغان مہاجرین کے اس دعوے کے بعد کہ وہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ بطور جنگجو شامل رہے تھے، ملکی فیڈرل پبلک پراسیکیوٹر نے ایسے ستر مبینہ سابق جنگجوؤں کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2c1LT
Afghanistan Taliban Kämpfer in der Ghazni Provinz
تصویر: Reuters

کیا اُس کے پاس کلاشنکوف تھی اور اگر ایسا تھا تو کیا اس نے افغان پولیس پر فائرنگ کی تھی؟ یہ وہ سوالات تھے جن کا جواب افغان تارکِ وطن واجد ایس نے چند ماہ قبل ’ہاں‘ میں دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز بدھ سے اِس اٹھائیس سالہ افغان مہاجر پر برلن کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

 طالبان کا رکن ہونے کی حیثیت سے واجد ایس پر الزامات عائد کرنے کے لیے کئی وجوہات موجود ہیں۔ جرمن دفترِ استغاثہ کے مطابق اِن میں سے ایک وجہ جرمنی میں فوجی ہتھیاروں کے کنٹرول کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ علاوہ ازیں اُس پر دو مقدمات میں مشترکہ قتل کی کوشش کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

 قیاس ہے کہ واجد نے سن 2009 میں طالبان تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ ابتدا میں وہ اپنے یونٹ کو صرف اشیائے خوردونوش اور گولہ بارود فراہم کرتا تھا تاہم سن 2014 سے اُس نے مبینہ طور پر کابل کے شمال مشرق میں واقع کاپیسا صوبے میں افغان پولیس کے خلاف حملوں میں حصہ لینا شروع کیا۔

Abschiebung von Flüchtlingen in München
بہت سے ایسے افغان مہاجرین کو جرمنی بدر کیا گیا ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو گئی تھیںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk

یہ تمام روداد واجد نے مہاجرت اور تارکینِ وطن کے لیے کام کرنے والے جرمن ادارے بی اے ایم ایف کو خود سنائی تھی۔ اسے گزشتہ برس اکتوبر میں جرمن ریاست سیکسنی اِنہالٹ سےگرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں واجد ایس نے جرمن پولیس کے سامنے بھی ماضی میں طالبان کا رکن ہونے کے اپنے بیان کو دہرایا۔

 کوئی یہ تسلیم کیوں کرے گا کہ اُس نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے؟ واجد ایس کے وکیل ڈینئیل شپارفکے کا کہنا  ہے کہ واجد کے معاملے میں جرائم قبول کرنے کی وجہ یورپ میں بہتر زندگی کی امید تھی۔ شپارفکے نے کہا کہ  واجد کے افغانستان سے ترک وطن کر کے جرمنی آنے کے پس پشت صرف اقتصادی وجوہات کارفرما تھیں۔ شپارکفے نے مزید کہا،’’ جرمنی پہنچنے پر اُسے مستقل ویزا ملنے کی امید نہیں تھی اس لیے اُس کے پاس اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ کوئی ایسی کہانی بنائے جو کسی مرحلے پر اسے یورپ میں پناہ دلانے میں مدد دے سکے۔‘‘ لیکن معاملہ صرف واجد ایس ہی کا نہیں ہے۔

 جرمن حکام ایسے مبینہ سابق طالبان جنگجوؤں کے ستر سے زیادہ کیسوں کی تفتیش کر رہے ہیں۔ وفاقی جرمن پراسیکوٹر کی جانب سے ان میں سے چار پر الزمات بھی عائد کیے جا چکے ہیں۔ جرمن نیوز میگزین’ڈیئر شپیگل‘ کے مطابق تاہم ایسے مقدمات کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

 برلن میں واجد ایس کے مقدمے کے ججوں کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا اُس نے شدید مایوسی کے عالم صرف سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولا یا واقعی اُس نے اِن جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ غالباﹰ فاضل جج اس بات کا بھی تعین کریں کہ آیا طالبان کی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر درجہ بندی کی جائے یا نہیں۔