1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’جرمنی کی یادداشت، ‘‘جرمن قومی لائبریری

امجد علی22 جولائی 2008

مرکزی جرمن لائبریری میں، جو مشترکہ طور پر فرینکفرٹ اور لائپسگ میں قائم ہے، محفوظ کی گئی کتابوں، رسائل اور سی ڈیز وغیرہ کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے۔

https://p.dw.com/p/Ehbq
فرینکفرٹ کی جرمن لائبریری کا ایک منظرتصویر: dbf

فرینکفرٹ، مشرقی جرمن شہر لائپسگ کے ساتھ مشترکہ طور پر جرمنی کی قومی لائبریری کا ہیڈ کوارٹر ہے اور ’’جرمنی کی یادداشت‘‘ کہلانے والے اس کتب خانے میں جرمنی کے اندر شائع ہونے والے تمام رسائل اور جرائد کے ساتھ ساتھ ایسا تمام اشاعتی مواد بھی جمع کیا جاتا ہے، جو جرمنی کے بارے میں کہیں سے بھی شائع یا جاری ہوتا ہے۔

فرینکفرٹ شہر کے مصروف مرکزی حصےمیں واقع قومی جرمن لائبریری کی عمارت میں بظاہر ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ کوئی اُسے دیکھتے ہی اُسے جرمنی کی سب سے بڑی قومی لائبریری کے طور پر پہچان بھی لے۔ تاہم سبز رنگ کی اِس سہ منزلہ عمارت میں جرمن زبان میں یا جرمنی سے متعلق چھپی ہوئی یا ریکارڈ کی ہوئی ہر چیز جمع کی جاتی ہے۔ ایسے میں یہاں رکھے گئے بک شیلفس کی مجموعی لمبائی125 کلومیٹر سے زیادہ اور یہاں جمع اکائیوں کی مجموعی تعداد آٹھ ملین سے زیادہ بنتی ہے۔

Deutsche Buecherei Leipzig
’’ادب کا مندر‘‘، مشرقی جرمن شہر لائپسگ میں لائبریری کی 1912ء میں تعمیر ہونے والی عمارت۔تصویر: dpa

ہر جرمن اشاعتی ادارے پر قانون کی رُو سے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ہاں شائع ہونے ہر کتاب کی ایک کاپی اِس لائبریری کو روانہ کرے۔ ایسے میں یہ کتابیں بھی اُن ایک ہزار دو سو نئی اکائیوں میں شامل ہوتی ہیں، جو روزانہ اِس لائبریری میں پہنچتی ہیں۔ اِس طرح اِس لائبریری کو کتابیں بھیجنے کا خیال بھی ایک سو آٹھ برس پہلے سن 1900ء میں خود اشاعتی اداروں کا ہی تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جرمن شاعروں اور مفکروں کی شائع شُدہ تخلیقات کو آنے والے زمانوں کے لئے محفوظ کیا جائے۔ جرمن قومی لائبریری کی فرینکفرٹ شاخ کی انچارجUte Schwens بتاتی ہیں:

”موٹا سا اصول یہ ہے کہ صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیہ اور برلن کو چھوڑ کر باقی تمام پرانے جرمن صوبے فرینکفرٹ شاخ کے دائرے میں آتے ہیں، جبکہ تمام نئے صوبوں میں شائع ہونے والے ادب کو محفوظ کرنے کا کام شہر لائپسگ میں قائم شاخ کے سپرد ہے۔“

مشرقی جرمن شہر لائپسگ میں محفوظ اکائیوں کی تعداد فرینکفرٹ سے بھی کہیں زیادہ یعنی تقریباً چَودہ ملین ہے۔ فرینکفرٹ شاخ سے استفادے کے لیے جانے والوں کی بڑی تعداد فرینکفرٹ کی گوئٹے یونیورسٹی کے محققین اور طالبعلموں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن یہاں بینکار بھی ہوتے ہیں اور سیاسی اور اقتصادی شعبے سے تعلق رکھنے والے اور لوگ بھی۔ یہاں جانے کے لئے محض مطالعے میں دلچسپی کافی نہیں ہے بلکہ استفادے کے خواہش مند کو باقاعدہ شناختی کارڈ کی مدد سے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ کوئی تحقیقی کام کر رہا ہے یا اُسے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں کوئی حوالہ جات وغیرہ درکار ہیں۔ مزید یہ کہ لائبریری میں جانے والے کی عمر کم از کم اٹھارہ سال ہونی چاہیے۔

اُوتے شوینس بتاتی ہیں: ”ہم کچھ بھی مستعار نہیں دیتے، یہ ایک طے شُدہ اصول ہے۔ ہم ایک آرکائیو لائبریری ہیں۔ قومی لائبریری کے طور پر قانونی طور پر ہمارے ذمے یہ کام ہے کہ ہم درحقیقت جو بھی کچھ جمع کرتے ہیں، اُسے اپنے پاس محفوظ رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ محض ہمارے مطالعہ ہال میں ہی بیٹھ کر یہاں موجود اشاعتی مواد سے استفادہ کر سکتے ہیں۔“

مطالعہ ہال میں تین سو پچاس نشستوں کا انتظام ہے، جن میں سے زیادہ تر قبل از دوپہر تک پُر ہو چکی ہوتی ہیں۔ پھر صرف لیپ ٹاپس پر چلتی انگلیوں اور ہلکی ہلکی سرگوشیوں ہی کی آواز ہی سنائی دیتی ہے۔ یہاں کتابوں ہی نہیں بلکہ تقریباً ستاون ہزار رسائل اور اخبارات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

انٹرنیٹ کی تیز رفتار ترقی کے بعد سن دو ہزار چھ سے اِس لائبریری میں انٹرنیٹ پر شائع ہونے والا مواد بھی جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں ای بُکس یا الیکٹرانک بکس یعنی انٹرنیٹ پر جاری ہونے والی کتابیں ہی نہیں بلکہ آن لائن رسائل اور اخبارات کے انٹرنیٹ ایڈیشنز کے بھی زیادہ سے زیادہ حصے محفوظ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

Pakistan Buchladen für gebrauchte Bücher in Rawalpindi, nahe Islamabad
پاکستان کے شہر راولپنڈی میں سڑک کے کنارے پرانی کتابوں کی ایک دوکان۔تصویر: AP

لائبریریاں پاکستان میں بھی ہیں، لیکن اُن میں رکھی گئی کتابوں کی تعداد یا اُن سے استفادہ کرنے والے قارئین کی تعداد ظاہر ہے، جرمنی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پاکستان کا ثقافتی دارالحکومت کہلانے والے شہر لاہور کے بیچوں بیچ واقع باغِ جناح میں وکٹورین طرز کی ایک خوبصورت عمارت ہے، جہاں کوئی رُبع صدی پہلے قائد اعظم لائبریری قائم کی گئی تھی۔ اِس کتب خانے کے چیف لائبریرین محمد تاج نے پاکستان میں لائبریریوں کی حالتِ زار پر گفتگو کرتے ہوئے اِس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے نہ تو پاکستان میں لائبریریوں کی حالت تسلی بخش ہے اور نہ ہی تعلیمی اداروں کی۔ جس رفتار سے ملک کی آبادی بڑھی ہے، اُس رفتار سے کتب خانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جا سکا۔

محمد تاج کے مطابق 1984ء میں قائم ہونے والی قائد اعظم لائبریری کے پاس اِس وقت ایک لاکھ چَودہ ہزار کتابیں ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اِس سال کے لئے لائبریری کا بجٹ بیس ملین روپے ہے، جس میں سے پانچ ملین صرف کتابوں کی خریداری پر خرچ کیا جائے گا۔ اُن کے اندازے کے مطابق ہر سال لائبریری کے ذخیرے میں تقریباً تین ہزار نئی کتابوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے، جبکہ رسائل اور جرائد اِس کے علاوہ ہیں۔

قائد اعظم لائبریری کے مستقل اراکین کی تعداد پندرہ ہزار ہے جبکہ یہاں روزانہ دو تا تین سو افراد اخبارات اور کتابوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ سے استفادے کے لئے آتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولت یہاں پر مفت فراہم کی جاتی ہے۔

لاہور میں سب سے بڑی لائبریری ’’پنجاب پبلک لائبریری‘‘ ہے، جس کے پاس موجود کتابوں کی تعداد پانچ لاکھ سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔

ادھر جرمنی میں اِس بار پہلی مرتبہ سال کی بہترین لائبریری کا اعزاز جاری کیا گیا ہے۔ دو ہزار آٹھ کی بہترین جرمن لائبریری کا تیس ہزار یورو مالیت کا یہ انعام جرمن صوبے باویریا کی شہر میونخ میں قائم اسٹیٹ لائبریری نے جیتا ہے۔ تقریباً دس ملین شائع شُدہ یا ریکارڈڈ اکائیوں کی حامل یہ لائبریری اِس سال اپنے قیام کی چار سو پچاس وِیں سالگرہ بھی منا رہی ہے۔ اِس کے ذخیرے میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ نئی اکائیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔