1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کے نام القاعدہ کا ویڈیو پیغام

19 جنوری 2009

انٹرنیٹ پر جاری کئے گئے ویڈیو پیغام میں القاعدہ کے مبینہ رکن کا کہنا تھا کہ جرمنی ، افغانستان میں اتنی بڑی تعداد میں فوج تعینات کر کے خود کو حملوں سے محفوظ نہ سمجھے۔

https://p.dw.com/p/GbWN
تصویر: DW

تیس منٹ دورانیے کی اس ویڈیو میں ایک شخص، کالی رنگ کی پگڑی پہنے، منہ ڈھانپے اور ہاتھ میں بندوق تھامے جرمن حکومت کو ایک پیغام دے رہا ہے۔ یہ شخص خود کو ابو طلحہ کے نام سے متعارف کرارہا ہے اور جرمن زبان میں بات کر رہا ہے۔ اس ویڈیو پیغام کے عربی سب ٹائٹلز بھی موجود ہیں۔ اسکرین کی سائڈ پر القائدہ کا لوگو لگا ہوا ہے، اور ویڈیو میں اکتوبر 2008ء کی تاریخ درج ہے۔

اس پیغام میں جرمن حکومت سے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں اتنی بڑی تعداد میں فوج تعینات کرکے یہ ملک اس یقین کا اظہار کررہا ہے کہ اس پر حملے نہیں ہوں گے، یہ بھولا پن نہیں تو اور کیا ہے؟ خود کو ابوطلحہ بتانے والے اس شخص نے حالانکہ جرمنی پر بلاواسطہ حملوں کی دھمکی نہیں دی۔

افغانستان میں اس وقت اتحادی افواج نیٹو میں شامل جرمن فوجیوں کی تعداد تقریباً ساڑھے تین ہزار ہیں۔ گزشتہ برس اکتوبر میں جرمن پارلیمان مزید ایک ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کے قانون کی منظوری بھی دے چکی ہے۔

جرمنی کو القائدہ کی طرف سے ملنا والا یہ پہلا پیغام ہے۔ دھشت گردی سے متعلقہ امور پر نظر رکھنے والے ممتاز ماہر میخائیل LÜDERS، اس پیغام کے حوالے سے کہتے ہیں: ’’ کابل میں حال ہی میں جرمن سفارت خانے کے باہر ہونے والا خود کش حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ہر حالت میں اسے سنجیدگی سے لیں۔ گزشتہ چند برس سے القائدہ انٹرنیٹ پر ویڈیو پیغامات جاری کر رہا ہے اور ایسے پیغامات کے بعد حملے بھی ہوئے ہیں۔‘‘

ہفتہ کو، کابل میں جرمن سفارت خانے کے باہر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری عسکری تنظیم طالبان نے لی ہے۔ بیشتر جرمن اخبارات اور مبصرین اس حملے کو القائدہ پیغام سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔

’’وہ جرمنی کو ہدف بنا رہے ہیں۔ بنیاد پرست مسلمان، جرمنی کی افغان پالیسی کو منفی اورتنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ جرمن حکومت پر نہ صرف افغانستان بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی متعصبانہ پالیسی اپنانے کا الزام لگاتے ہیں۔ اور اس وجہ سے وہ جرمنی کو زیادہ سے زیادہ اپنا ہدف سمجھ رہے ہیں۔‘‘

دریں اثناء جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہی جرمن خفیہ ادارے کو اس کے بارے میں علم تھا۔ جرمن وفاقی انسداد جرائم کا ادارہ اس ویڈیو پیغام کی جانچ میں مصروف ہے ۔