1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ادیب کلائسٹ کی یاد میں، دنیا کے سو شہروں میں تقریبات

25 نومبر 2011

جرمنی کے ممتاز شاعراور کہانی نویس ہائنرش فان کِلائِسٹ کی دو سو ویں برسی منائی گئی، اس موقع پر لاہور میں ہونے والی تقریب میں ہائنرش فان کلائسٹ کی تحریروں کو پڑھ کر سنایا گیا اور جرمن ادیب کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/13FJh
تصویر: public domain

گزشتہ دنوں لاہور کے آنے ماری شمل ہاؤس میں علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والی کئی شخصیات اکٹھی تھیں۔ یہ سب لوگ منفرد طرز تحریر کے حامل جرمنی کے ممتاز ادیب ہائنرش فان کِلائِسٹ کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے جرمن ثقافتی مرکزمیں جمع ہوئے تھے۔

جرمن کلچرل سنٹر کی ڈائریکٹر نادیہ ریاض نے جرمن ادیب کے بارے میں حاضرین کو معلومات فراہم کیں۔ ہائنرش فان کِلائِسٹ 18 اکتوبر1777ء میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ ’اُوڈر‘ میں پیدا ہوئے، ان کا ڈرامہ نویسی کا عرصہ صرف نو سالوں پر محیط ہے۔ اس کے باوجود اتنے مختصر سے عرصے میں ان کی لکھی گئی تحریروں نے جرمنی کے ادبی افق پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ "دی بروکن جگ" یا ٹوٹا ہوا برتن نامی ان کا ایک ابتدائی ڈرامہ ادبی حلقوں میں ان کی پہلی باقاعدہ شناخت کا باعث بنا۔ ان کا ایک اور ڈرامہ "دی پرنس آف ہیمبرگ" بھی بہت مقبول ہوا۔ ان کی زندگی میں ان کے صرف دو ڈرامے ہی اسٹیج ہو سکے لیکن ان کے تحریری کام کو ان کے مرنے کے بعد ہی زیادہ پذیرائی ملی۔

Flash-Galerie 200. Todestag Heinrich von Kleist
ہائنرش فان کلائسٹ کے ڈرامے’ دی بروکن جگ‘ کا منظرتصویر: picture-alliance/Werner Struss

ہائنرش فان کِلائِسٹ فوجی پس منظر کے حامل ایک متمول پُرشیائی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ سیاسیات اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی، فوج اور محکمہ خزانہ میں ملازمت بھی کی۔ فرانس کے خلاف جاسوسی کے الزام میں انہیں پابند سلاسل بھی کیا گیا۔ وہ کچھ عرصہ فرانس اور سوئٹزرلینڈ میں بھی رہے، اپنی زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے برلن کو اپنا مسکن بنا لیا، جہاں انھوں نے 1811ء میں اپنی ایک دوست کے ہمراہ خود کشی کرکے اپنی زندگی ختم کر لی۔ ان کی موت ان کا اپنا انتخاب تھا۔

ہائنرش فان کلائسٹ کی یاد میں منعقدہ تقریب میں پاکستان کی معروف فنکارہ عائشہ عالم نے کلائسٹ کی تحریروں کے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ حاضرین محفل خاص طور پراس وقت بہت متاثر ہوئے جب عائشہ نے اس جرمن ادیب کے ان خطوں کو پڑھ کر سنایا جو انہوں نے اپنی موت سے پہلے اپنے دوستوں اور عزیزوں کو لکھے تھے ۔ ہائنرش فان کِلائِسٹ نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ "اس بات کا ادراک حاصل کرنے کے لیے کہ زندگی کیسے گزاری جائے، پوری ایک زندگی کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ حتی کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ جنت مرنے کے بعد ہم سے کیا سلوک کرنے والی ہے۔" ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ عالم کا کہنا تھا کہ ہائنرش فان کِلائِسٹ کی زندگی یہ بھی بتاتی ہے کہ عام طور پر فنکاروں اور ادیبوں کی قدر ان کی زندگی میں نہیں ہو پاتی ہے، حالانکہ ان کی قدر افزائی ان کی زندگی میں ہی ہونی چاہیے۔

Annemarie Schimmel Haus in Lahore
ہائنرش فان کلائسٹ کی یاد میں تقریب میں آنے ماری شمل ہاؤس میں منقعد ہوئی۔تصویر: dpa - Fotoreport

جرمن سینٹر کی ڈائریکٹر نادیہ ریاض کا کہنا تھا کہ اس قسم کی تقریبات کے ذریعے دنیا کے معروف لکھاریوں کے بارے جاننے اور ان کے کام کے حوالے سے آگاہی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کے بقول اس تقریب کے بعد کئی لوگوں نے ان سے ہائنرش فان کِلائِسٹ کی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ معیاری ادب پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

لیلٰی نامی ایک خاتون نے بتایا کہ تناؤ سے بھری زندگی میں جب انسان ایسی تقریبات میں آتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں کیا کچھ موجود ہے۔ ان کے بقول غیر ملکی ادب کے مطالعے سے انسان بہت کچھ نیا سیکھ سکتا ہے۔ یاد رہے جرمنی کا مشہور کِلائِسٹ ایوارڈ دراصل ہائنرش فان کِلائِسٹ کے نام سے ہی منسوب ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں