1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

US/190508

22 مئی 2008

شاندار روایات کا حامل ممتاز جرمن اشاعتی ادارہ Rowohltاِس سال اپنے قیام کی ایک سو وِیں سالگرہ منا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/E4KL
تصویر: picture-alliance/ dpa

جرمنی کے بڑے اشاعتی اداروں میں شمار ہونے والا ادارہ Rowohlt پبلشرز سن 1908ء میں قائم ہوا تھا اور یوں اِس سال اپنے قیام کی ایک سو وِیں سالگرہ منا رہا ہے۔ اعلیٰ معیار کی کتابوں کی اشاعت کے لئے مشہور یہ ادارہ سال میں تقریباً چھ سو کتابیں شائع کرتا ہے۔ Rowohlt نے ہی ایک زمانے میں جرمنی میں پیپر بیک کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

یہ ادارہ ایک جانب عصر حاضر کا امریکی ادب منظر عام پر لاتا ہے تو دوسری جانب بزرگ جرمن ادیب مارٹن والزر یا پھر نوجوان جرمن ادیب ڈانیعیل کیہلمان جیسے ادیبوں کی کتابیں بھی شائع کرتا ہے۔ اِس ادارے کی بنیاد کیسے رکھی گئی، یہ کہانی سناتے ہوئے، ادارے کے بانی Ernst Rowohlt کہتے ہیں:

’’مَیں نے اپنے ادارے کی بنیاد 1908ء ہی میں رکھ دی تھی، جب مَیں اکیس برس کا تھا۔ اور پہلی کتاب شاعری کی تھی، جس کا بہت خوبصورت نام تھا، ’’گرمیوں کی راتوں کے گیت‘‘۔ یہ کتاب شہر بریمن سے میرے اسکول کے زمانے کے ایک دوست کی تخلیق تھی، جو بعد میں اِس شہر کا جانا پہچانا وکیل تو بنا لیکن کوئی کتاب اُس کی پھر کبھی شائع نہیں ہوئی۔‘‘

Ernst Rowohlt اور اُن کے بیٹے Heinrich Maria Ledig-Rowohlt کرشماتی شخصیات کے مالک پبلشرز تھے، جو 1908ء سے لے کر 1992ء میں بیٹے Ledig-Rowohlt کے انتقال تک جرمنی میں پبلشنگ کی دُنیا کی پہچان سمجھے جاتے تھے۔ بعد میں یہ ادارہ Rowohlt خاندان کی ملکیت نہیں رہا بلکہ ایک لمیٹڈ کمپنی کی شکل اختیار کر گیا۔ 1995ء سے لے کر سن دو ہزار تک اِس ادارے کی قیادت کرنے والے نکولاؤس ہانزن اِن دونوں باپ بیٹے کے بارے میں کہتے ہیں:

Neuer Walser-Roman Ein liebender Mann
مشہور جرمن ادیب مارٹن والزر کی روووہلٹ پبلشرز کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب’’ایک پیار کرنے والا آدمی‘‘تصویر: picture-alliance/dpa


’’دونوں باپ بیٹے کو اِس بات کی غیر معمولی سمجھ تھی کہ لوگوں کے ساتھ بات کیسے کرنی چاہیے۔ اُن کی بات میں اثر تھا، شدت تھی اور وہ دلچسپ اندازِ گفتگو کے مالک تھے۔ وہ غیر ملکی ادیبوں کو بھی اپنے ادارے کے ساتھ وابستہ کرنا جانتے تھے۔ مثلاً کیمرے سے اُتری ایک تصویر میں Ledig-Rowohlt اور مشہور امریکی ادیب ہینری ملر روووہلٹ پبلشرز کی مرکزی عمارت کے ہال میں ٹیبل ٹینس کھیلتے نظر آ رہے ہیں۔‘‘

یہ ادارہ بیس وِیں صدی کی دوسری دہائی کے اقتصادی بحران کے دَور میں مالی مشکلات کا بھی شکار ہوا۔ جرمن ادیب ہنس فلاڈا(Hans Fallada) کے ناول "Kleiner Mann was nun" میں اُس دَور کے غربت اور سیاسی انتہا پسندی سے عبارت جرمنی کی روئیداد تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ یہ وہ دَور تھا، جب جرمنی میں نازی سوشلسٹ برسرِ اقتدار آ گئے تھے۔ اَیرنسٹ روووہلٹ بتاتے ہیں:

’’1938ء میں نازیوں نے مجھے ریاستی ثقافتی چیمبر سے نکال باہر پھینکا اور مَیں نقل مکانی کر کے برازیل چلا گیا۔‘‘

جرمنی پر قابض چاروں اتحادی طاقتوں کی طرف سے اجازت نامہ ملنے کے بعد باپ بیٹا جنگ سے تباہ شُدہ جرمنی میں لوٹ آئے۔ ایک نے ہیمبرگ میں اور دوسرے نے اسٹٹ گارٹ میں پبلشنگ کے کام کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ اَیرنسٹ روووہلٹ کہتے ہیں:

’’1946ء میں حالات ایسے تھے کہ پبلشنگ کا سامان نہیں تھا، کاغذ نہیں تھا، خاص طور پر لکڑی کے بغیر والا کاغذ اور جلد بندی کے لئے تار۔ ایسے میں ہم نے اخبار کی طرز پر کتابیں شائع کیں، جنہیں جلد کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ اُن کی ہم نے کئی ملین کاپیاں فروخت کیں۔‘‘

یہ سلسلہ روووہلٹ روٹیشن رومان یعنی رو رو رو کے نام سے مشہور ہوا۔ سستی کتابیں، جو ہر ایک کی دسترس میں تھیں۔ نازی سوشلسٹ دَور میں کتابوں پر پابندی تھی، جنگ کے بعد ایسی کوئی پابندی نہیں رہی تھی اور اِن سستی کتابوں کی بدولت مطالعے کے شوقین خواتین و حضرات اپنی علمی پیاس بجھا رہے تھے۔ کسی بھی موضوع کی کوئی پابندی نہیں رہی تھی۔ تبھی تو ہَینری مِلر نے ا یک بار کہا تھا:

’’مجھ پر سب سے زیادہ پابندی امریکہ میں ہے جبکہ مَیں فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور سویڈن میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہوں۔‘‘

Pervez Musharraf_In The Line Of Fire.jpg
فیروز سنز پبلشرز نے صدر پرویز مشرف کی کتاب ’’اِن دا لائن آف فائر‘‘ کا اردو ترجمہ شائغ کیا۔تصویر: AP


جہاں یہ جرمن اشاعتی ادارہ اپنے قیام کی ایک سو وِیں سالگرہ منا رہا ہے، وہاں پاکستانی اشاعتی ادارے فیروز سنز کا قیام اِس سے بھی بہت پہلے یعنی سن 1894ء میں عمل میں آیا تھا۔ اِس ادارے کے بانی مولوی فیروزالدین کے پڑپوتے ظہیر سلام اور آگے اُن کے بچے بھی اِس کاروبار کو آگے بڑھا رہے ہیں، یوں اِس خاندان کی مسلسل پانچویں نسل اشاعت کے کاروبار سے وابستہ ہے۔

فیروز سنز کا قیام لاہور میں عمل میں آیا تھا لیکن آج کل اِس کی شاخیں پورے پاکستان میں موجود ہیں۔ یہ ادارہ اب تک بیس ہزار کے قریب کتابوں کو زیورِ طبع سے آراستہ کر چکا ہے۔ ظہیر سلام کا کہنا تھا کہ وہ جرمن شہر فرینکفرٹ کے سب سے بڑے عالمی کتاب میلے میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں اور اُنہوں نے کئی جرمن کتابوں کے حقوق لے کر اُن کتابوں کے انگریزی تراجم شائع کئے ہیں۔ تقریباً ایک سو پندرہ برس پرانا یہ ادارہ گذشتہ سڑسٹھ برسوں سے تواتُر کے ساتھ بچوں کے لئے ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے نام سے ایک مقبول ماہنامہ بھی شلئع کر رہا ہے۔