1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن حکام مہاجرین کی ’آواز پہچاننے‘ میں ناکام رہے

عاطف توقیر
29 مئی 2017

زبان پہچاننے والا سافٹ ویئر ان افراد کے خلاف پہلے سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ایک جرمن اخبار نے یہ الزام اپنی ایک رپورٹ میں عائد کیا ہے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اتنی بھی مؤثر نہیں، جتنا اسے سمجھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2dlB5
Symbolbild Bundesländer rechnen mit mehr Asylbewerbern
تصویر: picture-alliance/dpa/Patrick Pleul

جرمنی کی امیگریشن اتھارٹی اس حوالے سے کئی طرح کی تنقید کا شکار ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ ایسے مہاجرین جن کے آبائی ممالک کی نشان دہی ممکن نہیں تھی، انہیں اس سافٹ ویئر کا استعمال کر کے پہچانا جا سکتا تھا۔

جمعے کے روز جرمن اخبار ’’فرانکفرٹر الگمائینے‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں الزام عائد کیا کہ جرمنی کا وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور پناہ گزین گزشتہ برس سے اس سافٹ ویئر کا حامل تھا، تاہم اسے مہاجرین پر استعمال کرنے سے اجتناب برتا گیا، جس کی ایک وجہ جرمنی کا ’’نجی کوائف‘‘ سے متعلق قانون تھا۔

Pakistan Kindesmissbrauch Hussain Khan Wala
جرمنی میں لاکھوں مہاجرین بغیر کسی شناختی دستاویز کے داخل ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

اس اخباری رپورٹ میں محکمہ مہاجرت و پناہ گزین کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سن 2016ء میں اس وفاقی دفتر نے مختلف جرمن اور اسرائیلی کمپنیوں سے ’’لہجہ پہچاننے‘‘ والے سافٹ ویئر سے متعلق پیش کشیں بھی طلب کی تھیں، تاہم اس کا استعمال صرف رواں برس شروع کیا گیا۔

یہ بات اہم ہے کہ جرمنی پہنچنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی ساٹھ فیصد تارکین وطن شناختی دستاویزات کے بغیر ہیں اور ان کی بابت یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ ان کا اصل آبائی ملک کون سا ہے، یہی وجہ ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جانے پر بھی ایسے تارکین وطن کو ملک بدر کرنے میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔

اخبار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر یہ سافٹ ویئر استعمال کیا جاتا، تو برلن میں ٹرک حملہ کرنے والے انیس امری کی شناخت کی جا سکتی تھی، جو مختلف ممالک کے شناختی دستاویزات کا حامل تھا۔ اسی طرح فرانکو اے نامی اس انتہائی دائیں بازو کے جرمن فوجی کی بھی شناخت ممکن تھی، جس نے خود کو ایک شامی مہاجر کی حیثیت سے رجسٹر کرایا تھا اور اس کا منصوبہ تھا کہ وہ دہشت گردانہ حملہ کرے۔