1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن زبان مہاجر بچوں کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ

صائمہ حیدر
23 نومبر 2016

گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ جرمن حکومت نے اِن بچوں کے تعلیمی سلسلے کا آغاز کیاہے تاہم جرمن زبان اِس راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

https://p.dw.com/p/2T6nB
Deutschland Flüchtlingskinder in einer Schule in Duisburg
گزشتہ برس جرمنی آنے والے نو لاکھ تارکینِ وطن میں ایک تہائی افراد نا بالغ تھےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska

پندرہ سالہ مصطفیٰ کے لیے جرمن زبان سیکھنے کے عمل میں سب سے مشکل مرحلہ اِس زبان کی گرامر ہے۔ اُس کے ہم جماعت مجد کا بھی یہی خیال ہے۔ جرمن زبان میں حرفِ علت کی تبدیلی اِن دونوں شامی لڑکوں کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن وہ کوئی شکایت نہیں کر رہے بلکہ اپنے آبائی وطن میں جنگ زدہ حالات سے نکلنے سے لے کر یورپ کے دشوار سفر کرنے کے بعد اب اسکول دوبارہ شروع ہونے پر دونوں بہت خوش ہیں۔

 ہر نو عمر مہاجر کی طرح مصطفیٰ اور مجد کے لیے بھی اسکول آنا معمول کی زندگی کی طرف پہلا قدم ہے۔ مصطفیٰ اور مجد کے خاندان  گزشتہ برس جرمنی آنے والے نو لاکھ مہاجرین میں شامل ہیں۔ اِن تارکینِ وطن میں ایک تہائی افراد نا بالغ تھے۔ جرمنی کے لیے ایک بڑا چیلنج  اِن کم عمر مہاجر بچوں کو اپنے اسکول سسٹم میں ضم کرنا ہے۔

لیکن اِس رستے میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرنا آسان کام نہیں۔ زیادہ تر مہاجر بچے جب جرمنی پہنچتے ہیں تو وہ جرمن زبان سے یکسر  نا بلد ہوتے ہیں اور اُنہیں اسکول کی شکل دیکھے ہوئے اگر سال نہیں تو کئی ماہ گزر چکے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے بچوں کے تعلیم کی راہ میں وہ خوف بھی رکاوٹ بنتا ہے جس کا سامنا وہ اپنے ملکوں میں جنگ کے دوران کر چکے ہوتے ہیں۔

Syrien Flüchtlingskinder in einer Schule in Damaskus
مرجان کا کہنا ہے کہ اُن کے پرانے اور نئے اسکول میں فرق یہ ہے کہ یہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Itar Tass/M. Pochuyev

جرمنی میں اساتذہ کے سب سے بڑے یونین بورڈ کی رکن اِیکا ہوف مَن کا کہنا ہے، ’’ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ‘‘

 ہوف مَن کے اندازے کے مطابق پناہ گزین بچوں کی اِس بڑی تعداد کو اسکولوں میں داخل کرنے کے لیے جرمنی کو 24،000 اساتذہ بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوف مَن کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں نفسیاتی ماہرین اور کونسلرز کی ضرورت اِس کے علاوہ ہے۔ ہوف مَن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ صدماتی کیفیّت کا اظہار مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ اِس سے نمٹنے کے حوالے سے ہماری تیاری اچھی نہیں۔ ‘‘

 مصطفیٰ اور مجد فرینکفرٹ شہر کے مضافات میں واقع ایک قصبے حوخ ہائیم کے اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ چودہ سالہ افغان بچی مرجان کو بھی اسی اسکول میں رجسٹر کیا گیا ہے۔ مرجان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ میرا رابطہ جرمن بچوں سے بہت زیادہ نہیں لیکن سب بہت اچھے ہیں۔ ‘‘

Deutschland Musikstunde mit Flüchtlingskindern und deutschen Kindern in einer Schule in Margetshöchheim
جرمنی کے لیے ایک بڑا چیلنج  اِن کم عمر مہاجر بچوں کو اپنے اسکول سسٹم میں ضم کرنا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann

 مصطفیٰ کاکہنا ہے کہ جرمن بچوں سے رابطے بڑھانے اور پڑھائی میں اب بھی سب سے بڑی رکاوٹ جرمن زبان ہی ہے۔ مصطفیٰ کا کہنا تھا، ’’ ٹیچر اتنا تیز  بولتے ہیں کہ  میں بہت کم سمجھ پاتا ہوں۔ ‘‘ مرجان کا کہنا ہے کہ اُن کے پرانے اور نئے اسکول میں فرق یہ ہے کہ یہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں لیکن مرجان کے نزدیک یہ اچھی بات ہے۔ مصطفیٰ کو کراٹے کا جنون کی حد تک شوق ہے لیکن چونکہ وہ اِس میں کوئی مستقبل نہیں دیکھتا اِس لیے اُس نے پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرجان ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکی کہ وہ میک اپ آرٹسٹ بننا چاہے گی یا وکیل۔ تاہم مجد کا پورے اعتماد سے کہنا تھا۔ ’’ میں گریجویٹ کروں گا اور پولیس افسر بنوں گا۔