1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن کلاسیکی ادب کی نمائندہ، کرسٹا وولف

کشور مصطفٰی26 مارچ 2009

کرسٹا وولف جرمن کلاسیکی ادب کی واحد نمائندہ ہیں جو حیات ہیں اور حال ہی میں ان کی 80 ویں سالگرہ منائی گئی۔

https://p.dw.com/p/HKMm
نامور مصنفہ کرسٹا وولفتصویر: picture-alliance/dpa

سابقہ جرمن ڈیمو کریٹک ری پبلک سے تعلق رکھنے والی کرسٹا وولف کا شمار نہ صرف GDR کی ممتاز خاتون مصنفین میں ہوتا ہے بلکہ انھوں نے عالمی سطح پر بھی ایک کلاسیکی ادیبہ کی حیثیت سے بہت شہرت حاصل کی ہے۔

جرمن ثقافت کی تاریخ، جرمنی میں روز مرہ کی زندگی اور جرمن تہذیب تانیثی نقطہ نگاہ سے، ان تمام موضوعات پر قلم اٹھانے والی کرسٹا وولف کے بارے میں یہ کہنا نا ممکن ہے کہ ان کی تحریروں کا مرکزی نقطہ کیا ہے۔

Buchmesse Leipzig Christa Wolf Leibhaftig
کرسٹا وولف نے کئی جہتوں میں لکھا ہےتصویر: AP

کرسٹا وولف 34 برس کی تھیں جب انہیں سابقہ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک GDR کی ادبی اور ثقافتی آواز تصور کیا جانے لگا تھا۔ تاہم ان کی سوچ کی انفرادیت اور بیرونی دنیا پر آزادی کے ساتھ نگاہ ڈالنے کے حق سے متعلق کرسٹا وولف کے خیالات و نظریات سابقہ مشرقی جرمن ریاست کے سوشلسٹ ثقافتی ماحول سے میل نہیں کھاتے تھے۔ کرسٹا وولف بہت جلد ہی مشرقی اور مغربی جرمنی کے مابین ایک ایسی صدا بن گئیں جس کی گونج جرمنی کی داخلی سرحد کے دونوں طرف سنائی دینے لگی۔

’’دوپہر کو میں کچن میں کھانا پکاتے ہوئے حالات حاضرہ کے پروگرام اور خبریں سنا کرتی تھی۔ میں کوشش کیا کرتی تھی کہ روزمرہ کی سیاسی صورت حال کو Bettina کے نقطہ نگاہ سے دیکھوں۔ تمام تر سیاسی منظرنامہ مجھے ایسا ہی لگتا جیسا کہ بیٹینا بیان کیا کرتی تھی۔ سب کچھ ہی غلط! یہ مرد حضرات جو خود اور دیگر مردوں کو بلا وجہ اہم سمجھتے ہیں، یہ بظاہر سیاست کر رہے ہیں، یہ سیاست نہیں تشدد ہے اور یہ مرد حضرات طاقت کے مظاہرے سے اپنی ساکھ برقرار رکھنا چاھتے ہیں۔‘‘

Lesung mit Christa Wolf in Berlin
مصنفہ کرسٹاوولف برلن میں ایک کانفرنس میں گفتگو کے دورانتصویر: AP

کرسٹا وولف نے جس بیٹینا برنٹانو کا ذکر کیا وہ انیسویں صدی کی ایک ایسی سیاسی مصنفہ مانی جاتی ہیں جن سے ان کے عہد کے شاعری، موسیقی اور سیاسی میدان کے بڑے بڑے سالار بھی بے حد متاثر تھے۔ بیٹینا برنٹانو کو آفاقی شہرت حاصل کرنے والے جرمن موسیقار Beethoven کی تشویق، جرمنی کے قومی شاعر گوئتھے کی فکری ساتھی اور فرانسیسی بادشاہ، مدبر اور جنرل نپولین کی منظور نظر کہا جاتا ہے۔

جی ڈی آر سے تعلق رکھنے والی کرسٹا وولف کی فکر اور ان کی تحریروں پر بیٹینا اور ان جیسی چند یورپی ادب کی دیگر نامور خواتین کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔ بہت زیادہ آزاد اور روشن خیالی کے سبب کرسٹا کو جی ڈی آر میں خاصی تنقید کا سامنا تھا تاہم وہ اپنے وطن کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہیں۔ ان کی شخصیت اتنی مضبوط تھی کہ سابقہ جرمن ڈیموکیٹک ری پبلک نے انہیں استثنائی طور پر GDR سے باہر کی دنیا کی تسخیر کی اجازت دے رکھی تھی۔ کرسٹا وولف Ohio,Edenburg اور زیورش میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتی رہیں۔

وہ بحیرہ اسود سے لے کر خوبصورت فرانسیسی تفریحی مقام کوت دا زور تک میں تعطیلات گذارا کرتیں تاہم کرسٹا ہمیشہ ہی اپنے وطن واپس لوٹیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کہیں اور رہ ہی نہیں سکتیں اور نہ ہی کہیں اور رہ کر کچھ لکھ سکتی تھیں۔دیوار برلن گرنے سے ایک روز پہلے تک یعنی 8 نومبر 1989 تک کرسٹا وولف جی ڈی آر کے میڈیا کے ذریعے سوشلزم کی تشہیر کر رہی تھیں۔ دریں اثناء کرسٹا نے مشرقی جرمن ریاست کی سوشلسٹ یونٹی پارٹی SED سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
’’عزیز ہم وطنو! ہم سب شدید تشویش کا شکار ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہزاروں افراد ہر روز ہمارا وطن چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ناقص اور ناکام سیاست عوام کے اندر آخری لمحے تک عدم اعتماد کے احساس کو تقویت دینے کا باعث بنی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں عوامی ہجرت کے سبب ایک بے بسی کی سی کیفیت ہے۔ ایسے میں محض الفاظ کا سہارا ہی لیا جاسکتا ہے۔ جیسے جیسے ہمارے ہم وطن، ترک وطن کرکے یہاں سے جا رہے ہیں ویسے ویسے ہماری امیدیں بھی کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم آپ سب سے گزارش کرتے ہیں کہ اپنا وطن چھوڑ کر نہ جائیے۔ اپنی دھرتی کو نہ چھوڑئیے، ہمارے پاس، ہمارے سا تھ رہیئے۔‘‘

Die deutsche Schriftstellerin Christa Wolf,
کرسٹاوولف کی ایک یادگار تصویرتصویر: picture-alliance/ZB

کرسٹا وولف کے یہ الفاظ گرچہ جی ڈی آر کے شہریوں کو ترک وطن نہ کرنے پر مجبور نہ کر سکے۔ تاہم وطن سے وفاشعاری کرسٹا بھی نبھاتی رہیں۔ دیوار برلن گرنے کے بعد بھی وہ سوشلسٹ نظریات کی حمایت کرتی رہیں۔ جرمنی کے دوبارہ متحد ہونے کے بعد کرسٹا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک نئے مسودہ آئین پر کام بھی کیا تاہم دیوار گرنے کے بعد متحدہ جرمنی میں کرسٹا کے کاموں، ان کی تحریروں کے بارے میں ایک نئی سونچ نے جنم لیا۔

گویا ایک فکری دیوار کھڑی ہوگئی۔ کرسٹا وولف کو جرمن کلاسیکی ادب کی ایک اہم نمائندہ کے بجائے جی ڈی آر میں حکمرانوں سے قربت رکھنے والی ایک شاعرہ کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا۔ اس امر کا انکشاف ہوتے ہی کہ 60 کے عشرے میں کرسٹا جی ڈی آر کی ریاستی سلامتی کی وزارت Stasi کے لئے کام کرتی تھیں، متحدہ جرمنی کی سیاست میں انہیں جگہ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کرسٹا وولف نے اپنے وطن GDR سے ہمیشہ پیار کیا اور دیوار برلن گرنے کے بعد بھی متحدہ جرمنی ان کے لئے احنبی ہی رہا۔ اس امر کا وہ خود بھی اقرار کرتی ہیں۔

Lesung mit Christa Wolf
جب کرسٹا وولف 34 برس کی تھیں، انہیں سابقہ مشرقی جرمنی کی ادبی اور ثقافتی آواز تصور کیا جانے لگا تھا۔تصویر: AP

’’ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے کہ کون حق بجانب تھا ۔ ہر مفاد پرست گروپ ایک ایک مارک اور فینیگ کے فائدے کے لئے انتھک جدو جہد کرتا رہا۔ مشترکہ سوچ اور یکجہتی جیسے الفاظ بے معنی اور کھوکھلے ہو کر رہ گئے۔‘‘

تاہم نئی صدی میں ایک نئے جرمنی میں کرسٹا وولف کو ان کی تصنیفات اور سوانح عمری میں دوبارہ سے تلاش کر لیا گیا ہے۔ کرسٹا کی تحریروں میں ان کی فکر اور ان کے الفاظ کی قوت اور گہرائی نے فکشن اور حقیقت، خواب اور سچائی، رومانویت اور سیاست، ان تمام رنگوں کے خوبصورت امتزاج سے جو تصویر بنائی ہے وہ جیتی جاگتی اور دورحاضر کی عکاس لگنے لگی ہے۔ کرسٹا وولف اب 80 برس کی ہوگئی ہیں تاہم ان کا قلم آج بھی نہیں تھکا۔ اس سال ان کا ایک نیا ناول Stadt der Engel یعنی ملائکہ کا شہر شائع ہونے والا ہے۔ کرسٹا وولف کے بارے میں ماضی کی طرح اب بھی ادب کے نوبل انعام کے لئے ان کی نامزدگی میں کوئی دشواری نظر نہیں آتی اور کون جانتا ہے کہ ان کی 80 ویں سالگرہ ان کے لئے آنے والے دنوں میں اسی مکنہ انعام کی خوشحبری لے کر آئی ہو۔