1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن کلچر میں عرب ثقافت کا بڑھتا ہوا امتزاج

8 اگست 2017

گوئٹے، کانٹ، باخ اور بیتھوفن کے ملک جرمنی میں اب عربی شاعری اور مشرق وسطیٰ کی موسیقی کی گونج نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ وجہ مہاجرین کا وہ حالیہ بحران ہے، جس دوران مشرق وسطیٰ کے کئی عرب ممالک سے لوگ بڑی تعداد میں جرمنی پہنچے۔

https://p.dw.com/p/2hsJ9
Alternative Musik in der arabischen Welt
تصویر: Goethe-Institut Ramallah

جرمن دارالحکومت برلن میں واقع Between Us نامی کلچرل سینٹر میں مہاجرین کی باقاعدہ نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جو فنون لطیفہ، شاعری اور موسیقی کی مختلف اقسام کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ ایسی محفلوں میں عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کے علاوہ جرمن باشندے بھی کافی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔

ہیمبرگ میں تارکین وطن کے لیے محفل موسیقی

برلن نے مہاجرین کو یوں خوش آمدید کہا کہ وہ ’اُڑنے لگے‘

’جرمنی کا مرکزی ثقافتی دھارا‘ کیا ہے؟

ایسی نشستوں کا مقصد جرمن باشندوں کو مشرق وسطیٰ کی معاشرت اور ادب سے شناسا کروانا تو ہوتا ہے ہی لیکن ساتھ ہی یہی عمل مہاجرین کے لیے ذہنی اور جذباتی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔ اپنے آبائی ممالک سے دور ایک نئے دیس میں موجود یہ مہاجرین جب اپنی ثقافت، آرٹ اور طرز معاشرت کو یاد کرتے ہیں، تو ایسی محلفوں کا انعقاد کرتے ہیں۔

برلن میں ’ فیشن اور مہاجرت‘ فیشن شو

برلن میں ثقافتی نشستوں کے اس سلسلے کے بانی تیس سالہ مھند قیقونی خود ایک شامی مہاجر ہیں۔

انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جب وہ برلن آئے تھے، تو وہاں نہ تو کوئی ایسا کتب خانہ تھا، جہاں عربی زبان میں کتابیں دستیاب ہوں اور نہ ہی کوئی عرب کلچرل سینٹر یا ایسا کوئی دوسرا ادارہ۔

قیقونی نے کہا کہ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے اب برلن میں کئی شامی ادیب، فنکار اور موسیقار پہنچ چکے ہیں، ’’میں انہیں آپس میں ملاقات کے لیے جگہ اور ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہتا تھا۔‘‘

 

جرمنی میں آنے والے مہاجرین میں بڑی تعداد شامی باشندوں ہی کی ہے، جو اپنے ملک میں طویل خانہ جنگی سے فرار ہو کر جرمنی پہنچے ہیں۔

قیقونی شامی شہر حلب کے رہائشی تھے۔ وہ دو برس قبل ہی جرمنی پہنے اور رواں برس موسم گرما میں انہوں نے اس فورم کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے وسطی برلن میں واقع ایک ایسی سولہ منزلہ عمارت کے ٹاپ فلور پر اپنا دفتر بنایا، جہاں مہاجرین کو شیلٹر فراہم کیا گیا ہے۔ اس دفتر میں عربی زبان کی کتابوں کی ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے۔

ہر ویک اینڈ پر وہاں شامی موسیقار محفلیں سجاتے ہیں۔ ان محفلوں میں مہاجرین کے علاوہ مقامی لوگ بھی شرکت کرتے ہیں۔ قیقونی کہتے ہیں کہ شامی ثقافت کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی حد تک جرمن ثقافت کا حصہ بن جائے گی۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا، ’’ہم جرمن معاشرے میں ضم ہو جائیں گے۔ ہم جرمن معاشرے کی تعمیر میں بھی کردار ادا کریں گے۔‘‘