1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جس کے خلاف جنسی جرم، اسی سے مجرم کی شادی کا متنازعہ قانون

مقبول ملک
18 نومبر 2016

ترکی میں صدر ایردوآن کی حکمران جماعت کے ارکان پارلیمان کی طرف سے ایک ایسا نیا قانون تجویز کر دیا گیا ہے، جس کے تحت جنسی مجرم اپنے جرائم کی شکار خواتین سے شادیاں کر سکیں گے۔ یہ حکومتی مسودہ قانون بہت متنازعہ ہے۔

https://p.dw.com/p/2Susk
Proteste nach Mord an Studentin in der Türkei
ترک خواتین کا ایک بیس سالہ مقامی طالبہ کے ریپ کے بعد قتل کے ‌خلاف احتجاجی مظاہرہتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

استنبول سے جمعہ اٹھارہ نومبر کو ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس قانونی بل کی منظوری کی صورت میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد چند خاص شرائط پوری کرنے پر اپنے جرائم کا نشانہ بننے والے افراد سے شادی کر کے سزا سے بچ سکیں گے۔

اس مسودہ قانون کی ترک اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور خواتین کے حقوق کی بہت سی تنظیموں نے بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جماعت پارٹی برائے انصاف اور ترقی یا اے کے پی کے منتخب ارکان کی طرف سے ایوان میں پیش کردہ اس مسودہ قانون نے پارلیمانی کارروائی کا پہلا مرحلہ عبور کر لیا ہے۔ اب آئندہ منگل 22 نومبر کے روز اس مسودے پر انقرہ کی پارلیمان میں باقاعدہ رائے شماری ہو گی۔

اس قانونی مسودے کے ترک سیکولر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ مجوزہ قانون دراصل جبری شادیوں کو قانونی رنگ دینے کا باعث ہو گا۔ یعنی تب جنسی جرائم کا شکار ہو جانے کی صورت میں ایسی لڑکیوں کی بھی شادی کی جا سکے گی، جو اب تک رائج قانون کے مطابق اپنے نابالغ ہونے کی وجہ سے کم از کم قانونی عمر کو پہنچنے سے پہلے شادی نہیں کر سکتیں۔

Indonesien Kindesmissbrauch Banda Aceh
حقوق نسواں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ قانون سے نابالغ لڑکیوں کی قانونی شادیوں کے لیے ایک چور دروازہ کھل جائے گاتصویر: Getty Images/AFP/C. Mahyuddin

ناقدین کے بقول اس بل کا ایک دوسرا نقصان یہ بھی ہو گا کہ یوں ایک ایسے سابق قانون کے لیے پھر سے چور دروازہ کھول دیا جائے گا، جسے ترک پارلیمان نے ایک عشرے سے بھی زائد عرصہ قبل خود اس وقت منسوخ کر دیا تھا، جب ترک معاشرہ ترقی پسندی کے ایک دور سے گزر رہا تھا۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ترک شاخ کی ایک عہدیدار بیگم بسداس کا کہنا ہے، ’’اس طرح کا ایک قانون 2005ء سے پہلے تک موجود تھا۔ یعنی کسی کو ریپ والے کرنے یا کسی دوسرے جنسی حملے کے مرتکب کسی شہری کی اگر جنس مخالف سے تعلق رکھنے اور اس جرم کا نشانہ بننے والے کسی دوسرے فرد سے شادی ہو جائے تو ایسا کوئی بھی مجرم سزا سے بچ سکے گا۔‘‘

ماہرین کے مطابق اس مجوزہ قانون کا انسانی سطح پر ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر جنسی جرائم کے مرتکب مرد ہوتے ہیں اور نشانہ بننے والی خواتین۔ ایسی صورت میں بہت سے واقعات میں متعلقہ خاتون کی مجرم مرد سے شادی اسے انصاف دینے کی بجائے اس کے ساتھ عمر بھر کے لیے معاشرتی ظلم ہو گا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بیگم بسداس کے مطابق ترک خواتین کی تحریک نے ماضی میں رائج اس سابقہ قانون میں سزا سے بچاؤ کی شق کے خاتمے کے لیے بہت جدوجہد کی تھی تا کہ ظالم کی مظلوم سے شادی کو سزا کی منسوخی یا معطلی کے لیے جواز کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔

Türkei Bekir Bozdag
مجوزہ قانون تین ہزار تک ترک مردوں کو متاثر کرے گا، وزیر انصاف بوزداگتصویر: picture alliance/Abaca/S. Corum

ترکی میں یہ مسودہ قانون اگرچہ بہت متنازعہ ہے تاہم صدر ایردوآن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے زور دے کر کہا ہے کہ مجوزہ قانونی بل میں جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کو کوئی عمومی معافی نہیں دی گئی۔

ڈی پی اے کے مطابق ترکی میں حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ اس قانونی بل میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اس کا ممکنہ اطلاق صرف ان جرائم کے واقعات میں کیا جائے گا، جن میں جنسی تعلق کے لیے کوئی تشدد یا طاقت کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔

ترک وزیر انصاف بوزداگ کے مطابق پارلیمانی منظوری کی صورت میں اس قانون کے تحت دستیاب امکانات سے قریب تین ہزار تک ترک مرد فائدہ اٹھا سکیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں