جمہوریہ کانگو میں انتخابات، سیاسی گہما گہمی
27 نومبر 2011پچھلے 10 سال سے برسراقتدار کبيلا کے دور ميں معيشی ترقی تو جاری ہے، ليکن عوام غريب ہيں۔ اس کے باوجود وہ جيت سکتے ہيں۔ جب سن 2006 ميں کانگو کے پہلے آزادانہ انتخابات ميں جوزف کبيلا کو پہلی بارباقاعدہ طور پر ملک کا صدر منتخب کيا گيا تھا تو وہ اس سے پہلے پانچ سال تک حکومت کر چکے تھے۔
جمہوری انتخابات کے بعد عوام اور بين الاقوامی برادری کی توقعات خاصی زيادہ تھيں۔ کبيلا نے بھی ان اميدوں کو تقويت دينے کے ليے سب ہی کچھ کيا۔ انہوں نے زيادہ اور بہتر سڑکيں تعمير کرانے، پوری آبادی کے ليے نل کا پانی فراہم کرنے، بجلی کے جديد کيبل بچھانے، تعليم اور ملازمتوں تک بہتر رسائی، اور خاص طور پر امن کا وعدہ کيا جو ايک ايسے ملک ميں بہت بڑی تمنا ہے، جو برسوں تک جنگ کی لپيٹ ميں رہا، ايک ايسی جنگ جس ميں کئی افريقی ممالک ملوث تھے۔
ليکن اپنی حکومت کے مجموعی طور پر دس سال پورے ہونے پر کبيلا ابھی تک ان اميدوں کو پورا کرنے سے بہت دور ہيں۔ برلن کی فاؤنڈيشن برائے علم و سياست کے کانگو کے امور کے ماہر ڈينس ٹُل نے کہا: ’’صدر کابيلا کی حکومت کی کارکردگی اتنی اچھی نہيں ہے۔ اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے کوئی قابل ذکر ترقی نہيں ہوئی ہے۔ ملک ميں غربت بہت زيادہ ہے۔ ملکی اور معيشی ترقی کے منصوبے قدم نہيں جما پائے ہيں يا ان پر عمل ہی نہيں کيا گيا ہے۔‘‘
کانگو سونے کےعلاوہ موبائل فون ميں استعمال ہونے والے دھاتی مرکب کولٹان جيسے قيمتی خام مادوں اورمعدنيات سے مالا مال ہے۔ اقتصادی نمو کی شرح تقريباً سات فيصد ہے، ليکن اس اقتصادی ترقی کے ثمرات عوام تک نہيں پہنچ رہے ہيں۔ اقوام متحدہ کی 187 ممالک کی ترقياتی فہرست ميں کانگو کا نمبر سب سے آخر ميں آتا ہے۔ فی کس آمدنی بہت کم ہے اور بے روزگاری بہت زيادہ ہے۔
بين الاقوامی تھنک ٹينک control risks کے لندن کے مرکز سے وابستہ ٹام ولسن کے خيال ميں اس کی وجہ کبيلا کی خراب مالی پاليسی ہے: ’’کبيلا نے اپنے والد لاراں اور اُن کے پيش رو ہی کی طرح حکومت چلائی ہے۔ انہوں نے رياستی خزانے کو اپنے ممکنہ مخالفين کو خريدنے اور حکومت ميں شامل کرنے پر خرچ کيا ہے۔ انہوں نے ايک ذمہ دارانہ اور جمہوری طريقہ اختيار نہيں کيا۔‘‘
ڈينس ٹُل نے کہا کہ کانگو کے بہت سے علاقوں ميں منظم جرائم ہو رہے ہيں، مجرموں کے ٹولے سرگرم ہيں اور بہت سے بکھرے ہوئے گروپ اور مليشيا گروہ موجود ہيں۔ شہريوں پر مسلسل حملے ہوتے رہتے ہيں۔
رپورٹ: ڈرکے کوئپ / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک