1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل اسمبلی میں امریکی اور ایرانی صدور کی تقاریر

20 ستمبر 2006

اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں جنرل اسمبلی کا اجلاس بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ منگل کے روز اِس اجلاس سے امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے خطاب کیا۔ جہاں بُش نے ایران پر ایٹمی ہتھیاروں کے تیاری کی کوششیں ترک کرنے کے لئے زور دیا، وہاں ایرانی صدر نے مغربی دُنیا پر الزام عاید کیا کہ وہ سلامتی کونسل کو دھمکی دینے کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/DYJV
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد جنرل اسمبلی کے اجلاس میںتصویر: AP

امریکہ اور ایران کے صدور نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جان بوجھ کر ایک دوسرے کا سامنا نہیں کیا۔ قبل از دوپہر امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش کی تقریر کے دوران ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کو اچانک کوئی کام پڑ گیا اور وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور جب احمدی نژاد کی باری آئی تو اُن کی تقریر کے نوٹس لینے کےلئے امریکہ کی نمائندگی محض ایک نوجوان سفارت کار کر رہے تھے۔

ایرانی صدر ایک سال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خود اعتماد اور پرجوش نظر آ رہے تھے۔ اُنہوںنے اپنے تیس منٹ دورانیے کے خطاب کا آغاز امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سلامتی کونسل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کیا، جس کا ویٹو کا حق رکھنے والے ممالک ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔

احمدی نژاد نے کہا، جب چند ایک ممالک ہتھیاروں اور دھمیکوں کی زبان بول رہے ہوں اور کچھ مستقل غیر محفوظ حالات اور خطرات میں رہ رہے ہوں تو سلامتی کونسل اِس کے خلاف آخر کیا کر سکتی ہے؟

اسلامی جمہوریہء ایران کے صدر نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو پر امن قرار دیتے ہوئے اُس کا دفاع کیا، ایک ایسی ایٹمی طاقت کے مقابلے پر، جو ایٹمی ہتھیار استعمال بھی کر چکی ہے۔ احمدی نژاد نے کہا کہ ایٹمی طاقتیں سلامتی کونسل کو ناجائز طور اُن کے ملک پر دباﺅ کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔

انہوں نے اس کونسل میں فوری اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اِس میں عرب ملکوں، افریقہ اور ناوابستہ ممالک کی تحریک کو ایک ایسی نشست ملنی چاہیے، جس میں اُنہیں ویٹو کا بھی حق حاصل ہو تاکہ اُن ممالک کو بھی اپنا موقف بتانے کا موقع ملے، جنہیں اب تک دبایا جا رہا ہے۔

امریکی صدر جورج ڈبلیو بش کا لہجہ ایران کی جانب قدرے مفاہمانہ تھا۔ صدر بش نے ایرانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اُن کا اور اُن کے ملک کا احترام کرتے ہیں، ان کی شاندار تاریخ، اُن کی جاندار ثقافت اور انسانی تہذیب کی ترقی میں اُن کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن ایران کی موجودہ حکومت کو نہیں، جو بش کے بقول عوام کو آزادی نہیں دے رہی اور ملک کے وسائل کو دہشت گردی کے فروغ، انتہا پسندوں کی مدد اور ایٹمی ہتھیاروں کی دسترس میں آنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔

بش نے کہا، دنیا منتظر ہے اس دن کی، جب ایرانی عوام آزاد فضا میں رہ سکیں گے۔ 192 ممالک کے نمائندوں کے سامنے، جن میں سے کئی ایک شکوک و شبہات کا شکار تھے، مشرقِ وُسطےٰ میں امن، جمہوریت اور اقتصادی ترقی کا پیغام دینے والے امریکی صدر نے افغانستان اور خاص طور پر عراق کے لئے ایک شاندار مستقبل کی پیشین گوئی کی۔ خاص طور پر اسلامی دنیا کے ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے بش نے پوچھا کہ کیا وہ اعتدال پسند قوتوں کی تائید و حمایت کرنا چاہتے ہیں، جو مشرق وسطےٰ میں تبدیلی کے لئے کام کر رہی ہیں یا وہ اپنا مستقبل دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔