1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل اسمبلی کے اجلاس میں متحارب نظریات کا اظہار

21 ستمبر 2006

اس مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دنیا میںجاری خونریز جھڑپوں، غیرانسانی اقدامات، اور امتیازی رویوں کو ختم کرنے اور مختلف خطوں میں پائے جانے والے بحرانوں کو حل کرنے پر توجہ کی بجائے اپنے اپنے موقف کے دفاع اور اپنے اپنے اقدامات کا قانونی اور انسانی جواز فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/DYJT
تصویر: AP


نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ، سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے الوداعی خطاب سے شروع ہوا۔جس میں انہوں نے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں، کرہ ارض پر بڑھتی ہوئی غربت،ایڈز کی مہلک بیماری، دار فور اور مشرق وسطی کے بحران پر اپنی شدیدتشویش کا اظہار کیا۔

لیکن بظاہر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب دنیانہ صرف ہولناک ترین بحرانوںکی لپیٹ میں ہے بلکہ ان بحرانوں سے نمٹنے اوران کو وجود میں لانے والے اسباب کے سلسلے میں دنیا واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہے۔

اس گہرے اختلاف کو خاص طور پر ترقی پذیر ممالک اور بالخصوص اسلامی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دنیا میں پائے جانے والے ان بحرانوں نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی ساکھ اور غیر جانبدارانہ حیثیت کو بری طرح متاثرکر دیا ہے۔

انہی حقائق کے پیش نظر اس مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دنیا میںجاری خونریز جھڑپوں، غیرانسانی اقدامات، اور امتیازی رویوں کو ختم کرنے اور مختلف خطوں میں پائے جانے والے بحرانوں کو حل کرنے پر توجہ کی بجائے اپنے اپنے موقف کے دفاع اور اپنے اپنے اقدامات کا قانونی اور انسانی جواز فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔

صدر بش نے اپنی تقریر میں مشرق وسطی کے بحران کے سلسلے میں دنیا بھر میںامریکہ پر کی جانے والی نکتہ چینی کا جواب دینے کی کوشش کی اور دنیا پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ مشرق وسطی کے خیر خواہ ہیں، فلسطینی قوم سے مخلص ہیں، ایرانی قوم کو ایک عظیم ثقافت اور تاریخ کی حامل قوم قرار دیتے ہیں، علاقے میں امن کے خواہاں ہیں، اسلام کا احترام کرتے ہیں لیکن اس کی انتہا پسندانہ تعبیر کے مخالف ہیں ۔اور اپنے لوگوں کو ان افراد سے بچائیں گے جو اسلام کے بارے میں انحرافی سوچ رکھتے ہیں اور اسے تباہی کا ذریعے بناتے ہیں۔

جبکہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے عالمی طاقتوں کے خلاف اپنا روائتی موقف اپناتے ہوئے، ان پر قوموں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا ،اقوام متحدہ کو امریکی مفادات کا محافظ اور امریکہ کو دنیا کے بحرانوں اورعلاقے میں عدم استحکام کا اصل ذمہ دار قرار دیااور یہ سوال اٹھایا کہ اس دور میں دنیا کے مظلوم کس کے پاس شکایت لے کر جائیں، کون ہے جو مظلوموں کا دفا ع کرنے والا ہے،دنیا میں عدل و انصاف کی کرسی کہاں ہے۔

ان تمام چیزوں کے باوجود دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو صدربش نے اور نہ ہی ایرانی صدر نے اپنے روائتی موقف سے ہٹ کر کوئی ایسی نئی بات کی جس کو مسائل کے حل میں حقیقی پیشرفت قرار دیا جا سکے۔

اس درمیان پاکستان جیسے ممالک کو بھی اپنے موقف کے دفاع میں کچھ سنجیدہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔پاکستان کی سب سے بڑی مشکل تو یہ تھی کہ وہ نہ تو امریکہ کو ناراض کر سکتا تھا اور نہ ہی اسلامی دنیا سے خود کو جدا کر سکتا تھا اورساتھ ہی ساتھ ا س کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھرپور تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی بھی کرانا تھی اور مسئلہ کشمیر سے متعلق بھارت کے ساتھ اپنے تاریخی تنازعہ کے سلسلے میں اپنے موقف کی وضاحت بھی کرنا تھی۔

اس درمیان یہ تو ایک الگ مسئلہ ہے کہ کون کتنا کامیاب رہا لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس دنیا کے تمام ممالک کے لئے اپنی پر زور آواز اٹھانے کا بہترین مرکز ثابت ہوا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی حیثیت کو سخت ترین تنقید کا نشانہ بنانے والے ممالک بھی اس کے اجلاسوں میں شرکت کو ضروری سمجھتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں اصلاحات کا موضوع بھی اس اجلاس کے موقع پر بحث و گفتگو کا مرکز بنا ہوا ہے۔اس وقت دنیا کے بحرانوں کو ختم کرنے کے سلسلے میں ادارے کی ناکامی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کی صلاحیت سوال انگیز بن چکی ہے لہٰذا اقوام متحدہ کو جس اہم ترین چیلنج کا سامنا ہے وہ اپنی ساکھ کو مزید متاثر ہونے سے بچانا ہے۔

صدر پرویز مشرف نے نیو یارک میں اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات رکن ممالک کی ترجیحات اور اندیشوں کو سامنے رکھتے ہوئے کی جانی چاہییں،اور اسے مزید جمہوری ، شفاف اور موثر بنانے کے لئے رکن ممالک کے سامنے جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔