1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی زیادتی کا جھوٹا الزام ، خاتون ماڈل پر بھاری جرمانہ عائد

صائمہ حیدر22 اگست 2016

جرمنی کی ایک عدالت نے ایک اہم مقدمے میں جنسی زیادتی کا جھوٹا الزام لگانے پر ایک ماڈل گرل کو بیس ہزار یورو کا جرمانہ کیا ہے۔ اِس خاتون نے جرمن ٹی وی کے ماڈلز کے انتخاب کے ایک پروگرام میں بطور امید وار حصہ لیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Jn8H
Deutschland Gina-Lisa Lohfink verlässt Amtsgericht Tiergarten in Berlin
خاتون ماڈل نے جرمن ٹی وی کے ماڈلز کے انتخاب کے ایک پروگرام میں بطور امید وار حصہ لیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen

برلن کی ایک جرمن عدالت میں سن 2012 میں ہونے والے مبینہ ریپ کے واقعے کی سماعت کی گئی۔ اِس مقدمے میں ماڈل گرل گینا لیزا لوہفنک کے الزامات کی صحت کا جائزہ لیا گیا۔ اِس خاتون نے جرمن ٹی وی کے ماڈلز کے انتخاب کے ایک پروگرام میں بطور امید وار حصہ لیا تھا۔ اُس کے مطابق ماڈل کے انتخاب کے اِس پروگرام کے دوران دو مردوں نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں ماڈل گرل گینا لیزا کو ’نہیں نہیں ‘ کہتے سنا جا سکتا ہے۔

ابتدائی عدالت نے دونوں مردوں کو ویڈیو کی شہادت پر سزا سنائی لیکن انہیں ریپ کے مقدمے سے بری کر دیا تھا۔ اسی عدالت نے لوہفنک کو بھی جھوٹے الزامات عائد کرنے پر چوبیس ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی ہے لیکن لوہفنک نے جرمانے کی رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی پر جرمن قانون کے تحت مقدمے کا از سر نو جائزہ لیا گیا۔

Deutschland Gina-Lisa Lohfink verlässt Amtsgericht Tiergarten in Berlin
عدالت کے مطابق لوہفنک نے جان بوجھ کر جھوٹے بیان دیےتصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen

جرمن دارالحکومت کی عدالت نے آج سوموار کے روز کہا ہے کہ لوہفنک نے جان بوجھ کر جھوٹے بیانات دیے اور یہ کہ جنسی تعلق فریقین کی رضامندی سے قائم کیا گیا تھا اور لوہفنک کا مقصد اسے فلمانا تھا۔ لوہفنک جو اس مقدمے کے حوالے سے جرمن میڈیا کو کئی انٹرویوز دے چکی ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ امکاناً اسے نشہ دے کر جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ اِس تناظر میں عدالت کی طرف سے مقرر ایک ماہر نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ انہیں لوہفنک کو نشہ دیے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

یہ امر اہم ہے کہ جرمن قانون میں حال ہی ترمیم کی گئی ہے اور ریپ کا مقدمہ درج کرانے والے کا ایک ’نہیں‘ بھی کافی ہے۔ اس ترمیم سے قبل جنسی زیادتی کے شکار ہونے والے کو جسمانی مزاحمت ثابت کرنا ہوتی تھی۔