1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی افریقہ، آزادی صحافت سے متعلق متنازعہ بل ایوان زیریں میں منظور

23 نومبر 2011

جنوبی افریقہ کی پارلیمان نے خفیہ ریاستی معلومات کے تحفظ سے متعلق ایک مسودہء قانون کو منظور کر لیا ہے۔ ناقدین نے اس قانون پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک میں سنسرشپ کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/13FA8
تصویر: dapd

میڈیا، بزنس کمیونٹی اور اینٹی کرپشن لابی کے نمائندہ کارکنوں نے سنسر شپ سے متعلق اس نئے مسودہء قانون کے خلاف ملک کے کئی شہروں کےعلاوہ کیپ ٹاؤن میں واقع پارلیمان کی عمارت کے باہر بھی مظاہرہ کیا اور منگل کے دن کو ایک ’سیاہ دن‘ قرار دیا۔ ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اس قانون کے لاگو ہونے کے بعد بالخصوص صحافیوں کو رپورٹنگ میں شدید مشکلات پیش آئیں گی۔

منگل کو پارلیمان سے بھاری اکثریت سے منظور کیے گئے ’پروٹیکشن آف انفارمیشن بل‘ کے مطابق ایسے شخص کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، جس سے خفیہ ریاستی معلومات برآمد ہوں۔ اس مجوزہ قانون کے تحت کوئی بھی ریاستی ادارہ خفیہ معلومات کی اشاعت پر پابندی عائد کر سکتا ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو پانچ تا پچیس برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

Südafrika Pressefreiheit Informationsgesetz Protest Demonstration
صحافی برداری نے اس قانون کو آزادی صحافت پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہےتصویر: picture alliance/dpa

صحافی برداری نے اس قانون کو آزادی صحافت پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون سے صرف بدعنوان سیاستدانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس قانون پر عملدرآمد سے قبل اسے ابھی نیشنل کونسل آف پروانسز سے منظوری ملنا ضروری ہے، جنوبی افریقہ میں نیشنل کونسل آف پروانسز نامی آئینی ادارہ سینیٹ کا متبادل ہے۔

اس قانون کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون کے خلاف ملک کی آئینی عدالت سے رجوع کریں گے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس قانون کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس متنازعہ قانون کے باعث جنوبی افریقہ کی حکومت خود مشکلات میں گھر سکتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ جنوبی افریقی آرچ بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو نے بھی اس قانون پر تنقید کی ہے۔ مخالفین کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ اب براعظم افریقہ کے دیگر ممالک بھی جنوبی افریقہ کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں میں آزادی صحافت کو دبانے کے لیے ایسے قوانین وضع کر سکتے ہیں۔

رواں سال کے آغاز پر جنوبی افریقہ کی حکمران سیاسی جماعت افریقن نیشنل پارٹی نے سول سوسائٹی اور میڈیا کے سرکردہ نمائندوں کے ساتھ اس بل پر جامع بحث کی تھی، جس کے نتیجے میں اس کے مسودے میں 120 ترامیم کی گئی تھیں۔ میڈیا اور آزادی رائے کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ اس قانون میں کم ازکم ایک ایسی شق شامل کر لی جائے، جس کے تحت ایسی معلومات کو عام کرنے کی اجازت ہو، جو مفاد عامہ میں آتی ہوں۔ لیکن حکومت نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں