1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اور اس ہفتے کے جرمن اخبارات

17 اپریل 2009

اس ہفتے جرمن اخبارات میں سوات میں نظام عدل کا نفاذ اور بھارت میں عام انتخابات جنوبی ایشیا کے مرکزی موضوعات رہے اور مختلف زاویوں سے ان موضوعات پر روشنی ڈالی گئی۔

https://p.dw.com/p/HZIq
نمایاں موضوعات: بھارتی الیکشن اور سوات میں نظام عدلتصویر: AP

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع سوات کی وادی ميں پچھلے دو سال سے تحريک طالبان سوات مولانا فضل ا للہ کا کہا مانا جاتا ہے ۔ اخبار Neue Zürcher Zeitung تحرير کرتا ہے کہ حکومت بار بار عسکريت پسندوں کے ساتھ معاہدے کرتی ہے۔ حال ہی ميں زرداری حکومت نے نيم دلی سے، دہشت گردانہ حملوں کے خاتمے کے بدلے سوات ميں اسلامی قوانين يا شريعت کے نفاذ کی منظوری دی ہے۔ مولانا فضل اللہ کے خسر صوفی محمد شريعت کے نفاذ کی تحريک کے سربراہ ہيں اوروہ افغانستان ميں دس ہزار طالبان، امريکی فوج سے جنگ کے لئے بھيج چکے ہيں۔ افغانستان سے ملحقہ پاکستانی سرحد ميں طالبان کے قائد بيت اللہ محسود ايک خطرناک دہشت گرد ہيں اوروہ تحريک طالبان سوات کے بانی بھی ہيں۔ سوات ميں بار بارافغانستان اورعرب ملکوں سے آنے والے مبينہ بنیاد پسند ديکھے جاتے ہيں۔ وادی ميں بہت سے دوردراز واقع کونے ہيں جو دہشت گردوں کے لئے چھپنے کے موزوں ٹھکانے ہيں جن کی نگرانی بہت مشکل ہے۔

اخبار Fankfurter Allgemeine Zeitung لکھتا ہے کہ صحافيوں کی تنظيم Reporters Without Borders نے وادی سوات ميں پريس کی آزادی کے بارے ميں ايک رپورٹ پيش کی ہے جس کے مطابق يہ علاقہ دنيا ميں سب سے زيادہ خطرناک ہے۔ جو صحافی اس کے باوجود يہاں کام کررہے ہيں وہ خوف کے باعث خود اپنی رپورٹوں کو سنسر کرتے ہيں۔

سوات کی وادی ميں مصروف کار پاکستانی صحافيوں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہے۔ وادی ميں چھ علاقائی روزنامے شائع ہوتے ہيں۔ باہر کے علاقوں سے آنے والی مطبوعات زيادہ خريدی جاتی ہيں۔ پشاورسے شمال ميں واقع سوات کے تقريبا بارہ لاکھ شہری مناسب حد تک خوشحال اور تعليميافتہ سمجھے جاتے ہيں۔ ايک زمانے ميں يہ علاقہ سياحوں ميں بہت مقبول تھا ليکن اب غير ملکی رپورٹر بھی يہاں سے جا چکے ہيں۔ يہاں کے شہری مستقل خوف ميں مبتلاء رہتے ہيں۔ حکومت کسی قسم کا تحفظ فراہم نہيں کرتی۔

بہت سے ماہرين اقتصاديات يہ سمجھتے ہيں کہ عالمگيريت کی اگلی کامياب کہانی بھارت ہے۔ اخبار Tagesspiegel لکھتا ہے کہ بھارتی حکومت لمبے عرصے تک يہ سمجھتی رہی کہ بھارت اقتصادی زوال سے محفوظ تھا ليکن اب برآمدات ميں نماياں کمی ہو رہی ہے اور اسٹاک ایکسچینج ميں مندی ہے۔ غير ملکی سرمايہ کار اپنا سرمايہ نکال رہے ہيں جس سے بھارتی روپے پردباؤ ہے۔ ترقی کے جوش وخروش کے باوجود بھارت کی آدھی آبادی کو بھی پينے کا صاف پانی اور بجلی ميسرنہيں ہے۔ ہردوسرا بچہ غذا کی کمی کا شکار ہے اورلاکھوں بچے قانونی ممانعت کے باوجود روزانہ قالين بننے، جواہرات کی کٹائی اور کپاس کاتنے جيسی پرمشقت مزدوری کررہے ہيں اورشہروں ميں خاص طور سے گندے اورغريب علاقوں ميں اضافہ ہورہا ہے۔

اخبار فرانکفرٹرالگمائنے سائٹنگ لکھتا ہے کہ بھارت کے عنقريب ہونے والے پارليمانی انتخابات ميں کانگريس پارٹی اوراپوزيشن کی قوم پرست بی ۔ جے ۔ پی دونوں کے پاس عوام کی اکثريت کو متاثر کرنے والے اميدوار نہيں ہيں۔ وزيراعظم من موہن سنگھ ديانت دار سياستدان ہيں ليکن وہ کمزور ہيں اورسونيا گاندھی کی زير سرپرستی ہيں۔ اپوزيشن کے اکاسی سالہ قائد کے دامن پرسن انيس سو نوے کے عشرے کے شروع ميں ہونے والے مذہبی فسادات ميں ملوث ہونے کا داغ ہے۔ گجرات کے وزيراعلی مودی پس منظر ميں تيارہورہے ہيں، ليکن سن دوہزاردوکے مسلم دشمن ہنگاموں ميں ملوث ہونے کی وجہ سے وہ بھی متنازعہ ہيں۔

تحریر: پریا ایسلبورن / شہاب احمد صدیقی