1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اور جرمن پریس

27 مارچ 2011

گزشتہ ہفتے جرمن پریس میں پاکستان اور بھارت میں ایٹمی توانائی اور ری ایکٹروں کے حوالے سے ہونے والی بحث اور پاکستانی عوام کی اکثریت کی اسلام کے بارے میں ایک مذہب کے طور پر سوچ کو نمایاں حیثیت حاصل رہی۔

https://p.dw.com/p/10i4w
تصویر: AP

پاکستان میں کچھ عرصہ قبل دو اعتدال پسند سیاستدانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک صوبہ پنجاب کے گورنے سلمان تاثیر تھے اور دوسرے خود بھی مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اقلیتوں سے متعلقہ امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی۔ ان دونوں سیاستدانوں کو پاکستان میں توہین رسالت کے خلاف متنازعہ قانون کے پس منظر میں قتل کیا گیا اور یہ دونوں واقعات پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں، جس پر اندرون ملک اور بیرون ملک بہت تشویش پائی جاتی ہے۔

پاکستان میں اس مسئلے کو اپنے ایک تفصیلی تجزیے کا موضوع بنایا جرمن سوشلسٹ اخبار نوئس ڈوئچ لینڈ نے۔ اس سلسلے میں اس جرمن روزنامے نے ایک پاکستانی محقق پروفیسر ڈاکٹر سید وقار علی شاہ سے گفتگو کی، جو سن دو ہزار نو سے جرمن شہر ہائیڈل برگ کے ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ سے مہمان پروفیسر کے طور پر وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر سید وقار علی شاہ نے جریدے نوئس ڈوئچ لینڈ کو بتایا: ’’میری رائے میں اس بارے میں تشویش کا اظہار ضرورت سے زیادہ حد تک کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ ان واقعات کی اس مجموعی سوچ کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں بنتی، جو اس وقت پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ اسلام برداشت اور امن کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ شدت پسندی یا انتہا پسندی، جس کا پاکستان میں چند حلقوں کی طرف سے ذکر کیا جاتا ہے، وہ اس اسلام کے لیے بالکل ایک اجنبی چیز ہے، جو ہر وقت اعتدال پسندی اور میانہ روی کو مرکزی اہمیت دیتا ہے۔ انتہا پسندی کسی بھی شکل میں ہو، وہ ہر مہذب معاشرے کے لیے ہمیشہ ایک سنجیدہ خطرہ ہوتی ہے۔ ایسے مجرم عناصر، جو سماجی خلیج کی وجہ بنتے ہیں اور پھر اپنے قابل مذمت اعمال کے باوجود سزاؤں سے بچ بھی جاتے ہیں، ان عناصر کو مستقبل میں ایسا کوئی بھی کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت اعتدال پسندانہ مذہبی سوچ کی حامل ہے، وہ میانہ روی کا راستہ اپناتی ہے، ترقی پسند بھی ہے اور ایک مذہب کے طور پر اسلام کی ایسی کسی شکل یا تشریح کی کبھی تائید نہیں کرے گی، جو اصل حقائق کی نمائندہ نہ ہو۔‘‘

جاپان میں فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کے بحرانی حالات کے باعث دنیا بھر میں پائی جانے والی تشویش اپنی جگہ، چند ایشیائی ملکوں میں ایٹمی توانائی کے استعمال میں اضافے سے متعلق دھیمے ذہنی تحفظات اب قدرے بلند آواز ہوتے جا رہے ہیں۔ جرمن شہر فرینکفرٹ سے شائع ہونے والے اخبار فرانکفرٹر الگمائنے سائٹنگ نے اس بارے میں لکھا کہ مجموعی طور پر ایشیا کا ایٹمی توانائی سے جو تعلق پہلے تھا، وہ اب بھی زیادہ تر قائم ہے۔ اس بارے میں اپنے ایک جائزے میں کہا کہ پاکستان اپنے ہاں جوہری توانائی کے استعمال میں اضافے کا خواہش مند ہے، فرینکفرٹ کے اس روزنامے نے لکھا: ’’پاکستان میں ابھی تک دو ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ ایسے مزید تین پاور پلانٹ قائم کیے جائیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں زیادہ، پاکستان میں ایٹمی توانائی صرف اپنی افادیت کی وجہ سے ہی اہم نہیں ہے بلکہ وہ بہت زیادہ قومی فخر کا معاملہ بھی ہے۔ اس لیے پاکستانی حکومت نے جاپانی قوم کے ساتھ زبانی یکجہتی کا اظہار تو کیا لیکن خود اپنے ملک کے اندر کی صورت حال پر نگاہ نہ ڈالی۔ یہ صورت حال کامران شفیع جیسے پاکستانی صحافیوں کے لیے حقیقی معنوں میں باعث تشویش ہے۔‘‘

فرانکفرٹر الگمائنے سائٹنگ کامران شفیع کے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’انسان اس تصور سے ہی کانپ جاتا ہے کہ اگر مثال کے طور پر کسی وجہ سے کوئی سونامی لہر ادھر کا رخ کر گئی، تو کراچی کے ساحل پر ہاکس بے کے قریب ہمارے کنوپ ری ایکٹر کا کیا بنے گا۔ یہ بات کامران شفیع نے پاکستانی روزنامہ ڈان میں اپنے ایک مضمون میں لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسے ایٹمی ری ایکٹر ایک ایسے ملک میں بھی بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں جو بہت منظم ہے اور جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے اہم ملکوں میں شمار ہوتا ہے، تو یہی ایٹمی ری ایکٹر بھلا ایک ایسے ملک میں کسی دھماکے کی صورت میں ٹکرے ٹکڑے کیسے نہیں ہو سکتے جو اپنے ہاں منظم انداز میں کام کرنے والی کسی بس سروس کا بھی انتظام نہیں کر سکتا۔‘‘

گزشتہ ہفتہ کے جرمن اخبارات میں بھارت کے حوالے سے بھی ایٹمی توانائی کا کافی ذکر دیکھنے میں آیا۔ بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے جاپان میں فوکو شیما کے نیوکلیئر پاور پلانٹ کو پیش آنے والے حادثات کے فوری بعد یہ حکم دے دیا تھا کہ ملک میں تمام ایٹمی بجلی گھروں سے متعلق سکیورٹی انتظامات کا نئے سرے سے مکمل جائزہ لیا جائے۔ بھارت عالمی سطح پر ایک بڑی اقتصادی طاقت بننے کا خواہش مند ہے اور اس کے کل چھ ایٹمی بجلی گھروں میں مجموعی طور پر بیس نیوکلیئر ری ایکٹر کام کر رہے ہیں۔ ان ری ایکٹروں سے حاصل ہونے والی بجلی کی کُل پیداوار قریب چار ہزار آٹھ سو میگا واٹ بنتی ہے۔ میونخ سے شائع ہونے والے جرمن اخبار زُود ڈوئچے سائٹنگ نے لکھا کہ بھارت جاپان میں پیش آنے والے واقعات پر بڑی توجہ سے نگاہ رکھے ہوئے ہے: ’’بر صغیر میں ایٹمی توانائی کے خلاف کوئی بڑی یا وسیع تحریک موجود ہی نہیں ہے۔ لیکن جاپان میں ایٹمی پاور پلانٹ کے حادثے کے بعد سے زیادہ سے زیادہ تنقیدی آوازیں سننے میں آ رہی ہیں، جو اپنی طرف سے ایٹمی توانائی کے سول استعمال کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ نیوکلیئر فزکس کے ایک بھارتی ماہر ایس راجو نے ابھی حال ہی میں ایک ایشیائی خبر ایجنسی کو بتایا کہ بڑی بڑی ایٹمی تنصیبات میں تو سکیورٹی اور سیفٹی کا حتمی طور پر مکمل نظام قائم ہونا بہت مشکل ہے۔ پھر بحرانی حالات پر قابو پانے میں بھارت کے اپنے مسائل بھی ہیں۔‘‘

میونخ کے اس اخبار کے مطابق ایس راجو اس بات کے قائل ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کو سکیورٹی اقدامات کا زیادہ علم بھی نہیں اور پھر اس ملک میں کوئی غیر جانبدار نگران اتھارٹی بھی نہیں ہے۔ بھارت میں ایٹمی توانائی کے مخالفین اگرچہ یہ مطالبے کرتے ہیں کہ حکومت نئے ایٹمی بجلی گھروں سے متعلق اپنے منصوبے ترک کر دے تاہم نئی دہلی حکومت کی رائے میں اس کی تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ حکومت ایسے مظاہرین کے مطالبات مان بھی لے۔ اسی لیے بھارتی دارالحکومت میں یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت مجوزہ ایٹمی بجلی گھروں کے قیام کے اپنے منصوبوں پر قائم ہے۔ بھارت آئندہ برسوں میں اپنے ہاں بجلی کی پیداوار میں ایٹمی ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کے تناسب کو کم از کم بھی دوگنا کر دینا چاہتا ہے۔

تحریر: آنا لیہمان / مقبول ملک

ادارت: امتیاز احمد