1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اور جرمن پریس

ترتیب:آنے لیہمان-ترجمہ:امجد علی۔ادارت، عابد حسین19 اکتوبر 2009

جنوبی ایشیاء کے حالات و واقعات پر اہم جرمن اخبارات و جرائد نے گزشتہ ہفتے تبصرے اور اداریے شائع کئے، اُن کا احاطہ

https://p.dw.com/p/K9Zo
تصویر: AP

جرمن اخبار ''دی وَیلٹ'' لکھتا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندوں کے پے در پے حملوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اپنے قائد بیت الللہ محسود کی موت کے بعد بھی کمزور ہرگز نہیں ہوئے اور اُن کا نیا سربراہ حکیم االلہ محسود بھی اُتنا ہی بے رحم اور انتہا پسند ہے، جتنا کہ اُس کا پیشرو۔ اخبار لکھتا ہے:

''اُمید کی جا رہی تھی کہ بیت اللہ محسود کی موت کے بعد طالبان اتنی جلدی سنبھل نہیں سکیں گے لیکن نئے قائد کے انتخاب کے بعد ہوا اِس کے برعکس ہے۔ طالبان کے قیادتی ڈھانچے میں حکیم اللہ محسود نیچے سے اوپر آیا ہے، پہلے وہ محض ایک محافظ تھا، پھر مختلف خطوں میں سرگرم چھاپہ ماروں کا کمانڈر بنا اور بالآخر بیت اللہ محسود کا نائب مقرر ہوا۔ حکیم اللہ کو شہرت کی ہوس ہے اور اُس کے پاس دنیا کے خطرناک ترین دہشت گرد گروپوں کی قیادت ہے۔ اُس نے کھلے عام افغان طالبان کے قائد ملا عمر کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا ہے اور یوں یہ عندیہ دیا ہے کہ مختلف اسلامی گروپ اور القاعدہ اب اتنے خطرناک ہو چکے ہیں، جتنے کہ پہلے کبھی نہیں تھے۔''

German Press Review - Spezial Banner

گذشتہ ہفتے طالبان نے راولپنڈی میں فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز پر بھی دھاوا بول دیا تھا۔ ہفت روزہ اخبار ''دی سائیٹ'' کے مطابق یہ حملہ اگرچہ پسپا کر دیا گیا لیکن اِس سے فوج کی ساکھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اخبار لکھتا ہے:

''اب تک پاکستانی عوام کی اکثریت کا خیال تھا کہ اگرچہ فوجی برے سیاستدان ہیں لیکن اچھے لڑنے والے ہیں، اُن میں نظم و ضبط ہے اور وہ کاری ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب اِنہی فوجیوں کو طالبان نے دکھا دیا کہ لڑائی کسے کہتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی یہ سوچ رہے ہیں کہ اب کیا ہو گا کہ جب فوج اُن کی حفاظت ہی نہیں کر سکے گی، اور وہ بھی اِس لئے نہیں کہ وہ شاید انتہا پسندوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے بلکہ اِس لئے کہ وہ اُن کے خلاف جنگ جیتنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔''

طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیشِ نظر سوشلسٹ اخبار ''نَوئیس ڈوئچ لانڈ'' سوال کرتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار آخر کس حد تک محفوظ ہیں۔ اخبار لکھتا ہے:

''امریکیوں کی طرح پاکستان کے ایٹمی وار ہیڈز میں سلامتی کا کوئی ایسا الیکٹرانک کوڈ نہیں ہے، جو اِن وار ہیڈز کو چلنے کے قابل بنا دے۔ ایسے میں ماہرین انتباہ کر رہے ہیں کہ جس کسی کے بھی قبضے میں یہ ہتھیار آ جائیں، وہ اصولاً اِنہیں چلا بھی سکتا ہے۔ اگرچہ امن کے دور میں یورینیم سے حاصل کیا گیا مادہ وار ہیڈز میں نصب نہیں ہوتا اور یورینیم ہی کی طرح بموں کے خول بھی مختلف مقامات پر رکھے جاتے ہیں لیکن یہ تھوڑا بہت تحفظ بھی تھوڑی سی کوشش سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو بہرحال پاکستانی ہتھیاروں کو فوجی اعتبار سے محفوظ کرنے کی تیاریاں کرنی چاہییں۔ اِس مقصد کے لئے خصوصی تربیت یافتہ یونٹ بحرِ ہند میں ڈِیگو گارسیا کے اڈے پر ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔''

جرمن جریدے ''ہانڈلز بلاٹ'' کے مطابق بھارت کو فکر ہے کہ مستقبل قریب میں اُس کی توانائی کی ضروریات بہت بڑھ جائیں گی، اِس لئے وہ رواں صدی کے وَسط تک دنیا بھر میں سب سے زیادہ نئے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے:

''نئی دہلی حکومت کے منصوبے بہت بڑے پیمانے کے ہیں۔ وہ اگلے بیس برسوں کے دوران نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر پر ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ کا ہدف یہ ہے کہ صدی کے وَسط تک بھارت کی توانائی کی چالیس فیصد ضروریات ایٹمی بجلی گھر پوری کریں گے۔ تاہم اِس کے لئے مقامی ٹیکنالوجی پر انحصار کے امکانات زیادہ ہیں اور یہی بات مغربی دُنیا میں ایٹمی توانائی کا کاروبار کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے لئے بھی بے چینی کا باعث بن رہی ہے۔ آئی اے ای اے کے سربراہ البارادئی نے خبردار کیا ہےکہ نئے ایٹمی بجلی گھر محض سخت ترین حفاظتی معیارات کے مطابق ہی تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔ مغربی ماہرین انتباہ کر رہے ہیں کہ بھارتی ایٹمی بجلی گھر فرانس یا امریکہ کی ری ایکٹرز کی نئی جینریشن کے مقابلے میں کم محفوظ ہیں۔''