1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا، جرمن اخبارات کی نظر سے

1 مارچ 2010

جنوبی ايشيا کے حالات و واقعات کے بارے ميں جرمن زبان کے اخبارات کی آراء اور تبصروں پر مشتمل جائزہ۔

https://p.dw.com/p/MEee
تصویر: AP

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی، افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے دونوں جانب کے طالبان کی سرگرميوں کا ايک اہم مرکز بن گيا ہے۔ کراچی ميں حال ہی ميں طالبان کے تين رہنماؤں کو گرفتار کر ليا گيا۔ جرمن ہفت روزہ جريدہ Focus تحرير کرتا ہے:

اس سے مبصرين کے ايک عرصہ پہلے سے ظاہر کئے گئے ان اندازوں کی تصديق ہوتی ہے کہ جنگ کے علاقے سے باہر پاکستان، طالبان کے لئے پناہ لينے کی اہم ترين جگہ ہے۔ مغربی خفيہ اداروں اور فوجی ماہرين کا خيال ہے کہ ملا عمر کی سرکردگی ميں افغانستان ميں لڑنے والے طالبان کی اعلیٰ ترين قيادت کوئٹہ شوریٰ، جو بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے کارروائی کرتی ہے، اس دوران اپنے زيادہ تر ارکان کو کراچی منتقل کرچکی ہے۔ طالبان قيادت کی ملاقاتيں بھی کراچی ہی ميں ہوتی ہيں، کيونکہ وہاں انہيں کسی فضائی حملے کا خطرہ نہيں ہے۔ اس جریدے کا اندازہ ہے کہ اب تک کراچی ميں سيکيورٹی فورسز اس لئے مزيد طالبان کو گرفتار نہيں کرسکیں، کيونکہ پاکستانی خفيہ سروس آئی ايس آئی اُن کو تحفظ دے رہی ہے۔ ايم کيو ايم کے سياستدان رضوی نے کہا کہ آئی ايس آئی کے دوہرے کھيل کی وجہ ہی سے ملا عمر اور اُن کا خاندان بلاروک ٹوک کراچی ميں داخل ہوسکا ہے۔ رضوی نے کہا کہ آئی ايس آئی نے طالبان کے ذريعے افغانستان پر پاکستان کے پانچويں صوبے کی طرح حکمرانی کے نظريے کو کبھی ترک نہيں کيا۔

Mutmaßlicher Taliban Leiter Abdullah alias Abu Waqas
ہفت روزہ جرمن جریدہ Der Spiegel لکھتا ہے کہ طالبان رہنماؤں کی گرفتاری کے ذريعے پاکستان، افغانستان سے متعلق اپنی پاليسی نئے سرے سے ترتيب دینے کا اشارہ دے رہا ہے۔تصویر: AP

ایک اور ہفت روزہ جرمن جریدہ Der Spiegel لکھتا ہے کہ طالبان کے تين چوٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے ذريعے پاکستان کی فوجی قيادت يہ اشارہ دے رہی ہے کہ وہ ہمسايہ ملک افغانستان سے متعلق اپنی پاليسی نئے سرے سے ترتيب دے رہی ہے۔ اب تک فوجی جنرل طالبان کو خفيہ طور پر اپنے دفاعی اور حربی اتحادی سمجھتے تھے۔ وہ طالبان کے ذريعے افغانستان ميں اسلام آباد کے اثر کو يقينی بنانا چاہتے تھے اور اس کے بدلے ميں طالبان پاکستان ميں پناہ لے سکتے تھے۔ تاہم طالبان کے دوسرے اعلیٰ ترين قائد ملا عبدالغنی برادر کو گرفتار کر کے پاکستان نے عسکريت پسندوں سے اپنا معاہدہ توڑ ديا ہے۔ پاکستان کے قبضے ميں آنے والے طالبان کے با اثر ترين مذاکراتی قائد ملا برادر افغانستان کے نئے نظام ميں پاکستان کو شامل نہ کرنے کے خلاف پاکستانی جرنیلوں کے ہاتھ ميں ايک اہم ہتھيار ہيں۔ افغان حکومت کئی مہينوں سے طالبان کے نمائندوں سے بات چيت کر رہی ہے، ليکن وہ جان بوجھ کر پاکستان کو ايک ممکنہ ثالث کے طور پر نظر انداز کر رہی ہے۔ ملا برادر طالبان کے وہ واحد اعلیٰ کمانڈر بھی ہيں، جنہيں ملا عمر کے خفيہ ٹھکانے تک رسائی حاصل تھی۔

سوئٹزرلینڈ میں زیورخ سے شائع ہونے والا اخبار نوئے سیورشر سائٹنگ لکھتا ہے کہ بھارت ميں گذشتہ عشروں کے دوران صنعتی ترقی کے نام پر لاکھوں افراد کو اُن کی زمينوں سے بے دخل کيا جا چکا ہے۔ اس وجہ سے نہ صرف بڑے اقتصادی منصوبوں کے خلاف مزاحمت بڑھی ہے بلکہ ماؤ نواز نکسل باغيوں کو بھی تقويت ملی ہے۔ قبائلی باشندے مسلسل زيادہ تعداد ميں ماؤ نواز باغيوں کی صفوں ميں شامل ہو رہے ہيں جو طاقت کے ذريعے، بقول اُن کے، استحصال پسند حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہيں۔

رپورٹ: آنا لیہمان / شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک