1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا میں رشوت کا راج

22 دسمبر 2011

بدعنوانی پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ ایک سروے کے مطابق جنوبی ایشیا میں ہر تیسرے فرد کو اپنے جائز کام کروانے کے لیے افسران کو رشوت دینا پڑتی ہے۔

https://p.dw.com/p/13Xni
تصویر: fotolia

جرمنی کی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے کھٹمنڈو میں قائم دفتر سے جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق رشوت کے حوالے سے افریقہ کے بعد جنوبی ایشیا دنیا کا ہاٹ اسپاٹ بن چکا ہے۔

جنوبی ایشیا کے چھ ممالک میں کروائے گئے اس سروے میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ کے سات ہزار آٹھ سو افراد نے حصہ لیا۔ اِن میں سے چالیس فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران کسی نہ کسی صورت میں سرکاری ملازمین کو رشوت دینا پڑی۔ سروے کے مطابق رشوت وصول کرنے والوں میں پہلے نمبر پر اس خطے کے پولیس اہلکار آتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سروے میں شامل پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے دو تہائی افراد کو گزشتہ برس کرپٹ پولیس اہلکاروں کو رشوت دینا پڑی۔

Korrupte Justiz
پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے دو تہائی افراد کو گزشتہ برس کرپٹ پولیس اہلکاروں کو رشوت دینا پڑیتصویر: Fotolia/vician_petar

جنوبی ایشیا میں اس واچ ڈاگ کی سینئر کوآرڈینیٹر رخسانہ ننایاکر کا کہنا ہے، ’’جنوبی ایشیاء میں رشوت ایک معمول ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی حکومتوں سے اس کے خلاف اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ناراض ہیں۔‘‘

اس سروے کا نام ’روزمرہ کی زندگی اور کرپشن‘ رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے 62 فیصد افراد کے خیال میں گزشتہ چند برسوں کے دوران رشوت لینے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جبکہ اس رجحان میں اضافے کے سبب سب سے زیادہ مایوس پاکستان اور بھارتی باشندے نظر آتے ہیں۔

سروے میں شامل 80 فیصد افراد نے کہا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں اور اس سلسلے میں کی جانے والی کسی بھی کوشش کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ ننایاکر کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کی حکومتیں اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عوام بڑھتی ہوئی کرپشن سے تنگ آ چکے ہیں اور اس کے سدباب کے لیے کارروائی کے منتظر ہیں۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں