1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی سوڈان میں مقامی میڈیا کی ترویج کی کوششیں

31 جنوری 2011

جنوبی سوڈان کی آزادی سے متعلق ریفرنڈم کے بعد اب وہاں مقامی ذرائع ابلاغ کی بنیادیں رکھی جانے لگی ہیں تاکہ عنقریب ہی ایک نئی خود مختار ریاست کے طور پر وجود میں آنے والے اس ملک میں آزاد میڈیا کی کمی محسوس نہ ہو۔

https://p.dw.com/p/107jP
جنوبی سوڈان میں امن کی ترویج کا کام کرنے والا ریڈیو بخیتاتصویر: DW

یورپی ملک بیلجیم میں گزشتہ ایک عشرے سے ایک مقامی چھاپے خانے میں فرانس کی بنی ہوئی ایک ایسی مشین استعمال کی جا رہی تھی، جس پر ماضی میں کتابیں اور رسالے چھاپے جاتے تھے۔ لیکن اب یہی مشین جنوبی سوڈان میں جوبا کے مقام پر منتقل کر دی گئی ہے۔ وہاں اس مشین پر ایسے اخبار چھاپے جا رہے ہیں، جو جنوبی سوڈانی دارالحکومت میں شائع ہونے والے اولین غیر جانبدار روزناموں میں شمار ہوتے ہیں۔

جوبا سے شائع ہونے والے ایک نئے روزنامے کا نام ’دی سٹیزن نیوز پیپر‘ ہے، وہ انگریزی زبان میں چھپنے والا ایک اخبار ہے اور اس کے مدیر کا نام نہیال بول ہے۔ نہیال بول کہتے ہیں کہ جوبا میں میڈیا انڈسٹری کے حوالے سے جو پیش رفت نظر آ رہی ہے، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ’ہم اپنے ملک کو اس طرح تیار کرنا چاہتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں ایک قوم بن سکیں اور ایک بااثر میڈیا طاقت والا ملک بھی‘۔

NO FLASH Sudan Referendum
جنوری کے وسط میں جنوب کا ایک شہری جنوبی سو‌ڈانی پرچم کے ہمراہ ایک پولنگ اسٹیشن پر جاتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa

جنوبی سوڈان میں اسی مہینے جو تاریخی ریفرنڈم منعقد ہوا، اس کے بعد یہ امکانات انتہائی قوی ہو گئے ہیں کہ افریقہ میں اب تک کی سوڈانی ریاست کا یہ جنوبی حصہ بہت جلد ایک خود مختار ملک بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی سوڈان، خا‌‌ص کر اس کے علاقائی دارالحکومت جوبا میں اس بارے میں جوش و خروش مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں اس نئی وجود میں آنے والی ریاست کو درپیش مسائل سے بہتر سے بہتر انداز میں کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔

جنوبی سوڈان میں ہونے والا یہ کئی روزہ ریفرنڈم سن 2005 میں طے پانے والے اس امن معاہدے کا مرکزی حصہ تھا، جس کے نتیجے میں وہاں 22 سال سے جاری خرطوم میں سوڈانی حکومت کے فوجی دستوں اور جنوب کے مسلح باغیوں کے مابین خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہو سکا تھا۔

جنوبی سوڈان میں ماضی میں مسلح باغیوں کی جو فوج بڑی فعال تھی، اس کا اپنا ایک خاص طرح کا جھنڈا بھی تھا۔ یہی جھنڈا اس ٹی شرٹ پر بھی بنا ہوا ہے، جو ’دی سٹیزن نیوز پیپر‘ کے مدیر Nhial Bol نے پہن رکھی ہے۔ نہیال بول کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان کے عوام کو مل کر اس خطے کو ایک ایسے علاقے میں تبدیل کرنا ہو گا، جو نہ صرف ایک آزاد اور خود مختار ملک بنے بلکہ آئندہ بڑی کامیابی سے خود اپنے پاؤں پر کھڑا بھی ہو سکے۔

Jimmy Carter Kofi Annan Sudan
اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کے موقع پر جوبا کے ایک دورے کے دورانتصویر: AP

آئینی طور پر جنوبی سوڈان چونکہ ابھی تک سوڈانی ریاست کا حصہ ہے، اس لیے جنوبی سوڈان میں کئی سیاسی رہنماؤں اور میڈیا شخصیات کو شکایت ہے کہ انہیں ابھی تک شمالی سوڈان کی طرف سے لگائی گئی سخت سنسرشپ کا سامنا ہے۔ وہاں نئے پرنٹنگ پریس لگا کر نئے اخبارات کی اشاعت اس لیے شروع کی گئی ہے کہ خرطوم حکومت یا اس کے اتحادیوں کی بہت کڑی سنسرشپ سے بچتے ہوئے مقامی میڈیا کو ترقی دی جائے۔

دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں صحافتی آزادی کی صورت حال نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کے اعداد و شمار کے مطابق اس تنظیم کے پریس فریڈم انڈکس کے مطابق سوڈان اس وقت عالمی سطح پر 178 میں سے 172 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں آزادی صحافت کے سلسلے میں صورت حال انتہائی پریشان کن اور کسی بھی طور باعث تسلی نہیں ہے۔

ان حالات کی وجہ زیادہ تر شمالی سوڈان میں حکومت کی طرف سے عائد کردہ وہ پابندیاں بنیں، جن کا نشانہ خاص طور پر جنوبی سوڈانی میڈیا کو بنایا جاتا تھا۔ اب لیکن جنوبی سوڈان میں نئے، آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کی ترویج کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہیں، ان سے ان امیدوں کو تقویت ملنے لگی ہے کہ مستقبل میں، جب جنوبی سوڈان ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہو گا، وہاں پریس فریڈم کی صورت حال اب تک کے حالات کے مقابلے میں کہیں بہتر ہو گی۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں