1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریا ’’گھر کی تعلیم ہی بہتر ہے‘‘

عدنان اسحاق8 دسمبر 2015

جنوبی کوریائی نوجوان ایک عرصے تک اعلٰی تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے رہے ہیں۔ تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ کیا جنوبی کوریا میں تعلیمی نظام بہتر ہو گیا ہے یا پھر فیس کم کر دی گئی ہے؟ جانیے اس رپورٹ میں۔

https://p.dw.com/p/1HJAj
Nordkorea - Internet
تصویر: picture-alliance/dpa

جنوبی کوریا میں تعلیم کے خاتمے کے بعد روزگار کی تلاش میں تعاون کرنے والے اداروں اور طلبہ کا کہنا ہے کہ ملکی سطح پر معیار تعلیم بہتر ہوا ہے۔ اس صورتحال میں بیرون ملک انگریزی میں تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ کو جو فوقیت دی جاتی تھی، وہ بھی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی ملکی یونیورسٹیوں میں دوران تعلیم ہی ان طلبہ کے مختلف کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے اچھے رابطے قائم ہو جاتے ہیں، جن کی بناء پر بعد میں روزگار ڈھونڈنے میں آسانی ہوتی ہے۔

اسی طرح کی ایک کمپنی کے سینیئر ایگزیکٹیو ڈائریکٹر لی یونگ می کا کہنا ہے:’’ملکی یونیورسٹیوں سے گریجوایشن کرنے والوں کی تعداد بڑھی ہے، اس وجہ سے بیرونی ممالک سے تعلیم یافتہ طلبہ پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنے کا رجحان بھی ختم ہوتا جا رہا ہے‘‘۔ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن ’ آئی آئی ای‘ کے مطابق پہلے نوجوانوں کو تعلیم کی غرض سے امریکا بھیجنے میں چین اور بھارت کے بعد جنوبی کوریا ہی کا نمبر آتا تھا تاہم گزشتہ چار برسوں کے دوران یہ رجحان تبدیل ہو گیا ہے۔

کم ڈونگ جن جنوبی کوریائی دارالحکومت سیول کی کومکن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور ایل جی الیکٹرونکس نامی ایک کمپنی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’’کئی کوریائی آجر ادارے ابھی بھی جاب کی درخواست دینے والے ان نوجوانوں کو اہمیت دیتے ہیں، جنہوں نے بیرون ملک سے ایم بی اے وغیرہ کیا ہو لیکن کسی دوسرے ملک کے تجربہ کار انڈر گریجویٹس کی مانگ میں کمی آئی ہے‘‘۔

انہوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ کوریا میں رہتے ہوئے تعلیم اور تجربہ حاصل کرنے والوں کے رابطے پیشہ ورانہ شعبے کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہیں:’’ملکی طلبہ کو اپنے کالج اور یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ اپنے سینیئرز کی جانب سے بھی تعاون حاصل رہتا ہے، اس کے علاوہ حکومتی منصوبوں نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘ دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ بیرون ملک تعلیم مکمل کرنے والے کوریائی نوجوانوں کو ملک میں اپنی واپسی کے بعد روزگار کی منڈی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔