1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگجوؤں کی واپسی، پاکستانی فوجیوں پر حملوں میں اضافہ

18 ستمبر 2020

حالیہ مہینوں میں ٹی ٹی پی کے اتحادی جنگجوؤں نے مقامی لوگوں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملے تیز کر دیے ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ مسلح گروہ دوبارہ سرحدی علاقوں میں قدم جما سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3igTT
Pakistan Beisetzung Opfer Selbstmordanschlag Taliban in Lahore
تصویر: picture-alliance/Zumapress

چند برس پہلے تک افغان سرحد سے ملحق پاکستانی قبائلی علاقے القاعدہ اور طالبان کا گڑھ تصور کیے جاتے تھے۔ سن دو ہزار ایک میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد عسکری گروہوں کے لیے یہ علاقے محفوظ پناہ گاہیں بن گئے۔ پھر سن دو ہزار چودہ میں پاکستانی فوج نے ان فوجی آپریشن شروع کیا اور بڑی حد تک ان علاقوں سے طالبان اور القاعدہ کے ٹھکانے صاف کر دیے۔ نتیجتاﹰ کئی جنگجو افغانستان فرار ہو گئے۔

لیکن اس سال مارچ سے افغانستان میں موجود داعش اور القاعدہ سے منسلک پاکستانی طالبان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ شاید وہاں جنگ بندی کی کوششیں کامیاب  ہونے سے ان کا وہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ان گروہوں نے اب پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان، جو کافی حد تک کمزور ہو چکی تھی، نے بظاہر پاکستانی قبائلی علاقوں میں دوبارہ قدم جمانے شروع کر دیے  ہیں۔

حملوں میں نمایاں اضافہ

جولائی میں ٹی ٹی پی نے تقریبا چھ مقامی مسلح گروہوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ اسلام آباد میں فاٹا ریسرچ سینٹر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر منصور خان محسود کا کہنا ہے، ''اس گروپ کی صلاحیت، عسکری طاقت اور اس کے دائرہ کار میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔‘‘

ستمبر کے مہینے میں تقریبا ہر روز ہی کہیں نہ کہیں حملے ہوئے ہیں۔ کبھی سڑک کنارے بم نصب کیے گئے، کبھی سنائپر حملے ہوئے اور کبھی گھات لگا کر سکیورٹی فورسز اور حکومت کے قریب سمجھے جانے والے مقامی لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق ان علاقوں میں مارچ کے بعد سے کم از کم 40 پاکستانی فوجی مارے جا چکے ہیں۔

Pakistan Selbstmordanschlag auf eine Moschee
تصویر: picture-alliance/AA/M. Khan

اسی طرح جنوری سے جولائی کے درمیان 67 حملے ہوئے اور ان میں 109 شہری بھی مارے گئے۔ فاٹا ریسرچ سینٹر کے مطابق سن دو ہزار انیس کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی ہے۔

 واشنگٹن میں قائم سٹیمسن سینٹر کے پروگرام برائے جنوبی ایشیاء کی ڈپٹی ڈائریکٹر الزبتھ تھرکلیلڈ ماضی میں امریکی وزارت خارجہ سے منسلک رہ چکی ہیں اور پاکستان میں بھی کام کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ٹی ٹی پی کا دوبارہ قدم جمانا دو طرح سے پریشان کن ہے۔ ایک تو اس کی اپنی کارروائیاں باعث تشویش ہیں اور دوسرا اس کے القاعدہ جیسے گروہوں سے بھی روابط ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے، ''اگر یہ گروپ دوبارہ علاقوں پر کنٹرول حاصل کرتا ہے تو یہ بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کو اہم مدد فراہم کر سکتا ہے۔‘‘

افغان امن مذاکرات کے اثرات

سیاسی ماہرین کی رائے میں افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں کا ایک غیر ارادی نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بدامنی بڑھ جائے۔ امریکا کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان طالبان نے یہ گارنٹی دی ہے کہ وہ غیرملکی شدت پسندوں کی پناہ گاہیں ختم کریں گے۔

اقوام متحدہ نے جولائی میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق افغانستان میں تقریبا چھ ہزار پاکستانی جنگجو موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ٹی ٹی پی سے منسلک ہیں۔ اس رپورٹ میں خطرہ ظاہر کیا گیا تھا کہ افغانستان میں پناہ گاہیں ختم ہونے کی صورت میں وہ واپس پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں ایک مغربی سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ ''یہ صورتحال سب ہی کے لیے پریشان کن ہے۔‘‘ پاکستانی فوج نے حال ہی میں ٹویٹر پر ایک بیان میں کہا کہ بڑھتے ہوئے حملے 'افغانستان میں امن بات چیت کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش ہیں۔‘‘

افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں لوگوں کے لیے حالات پریشان کن ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے رواں ہفتے ہی ایک بیان میں لوگوں کو متنبہ کیا کہ ''جب تک امن قائم نہیں ہو جاتا، وہ یہ علاقہ چھوڑ دیں۔ پاکستان کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے اور آپ کو روزانہ ایسے حملے دیکھنے کو ملیں گے۔‘‘

ا ا / ش ج (روئٹرز)