1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگی جرائم میں ملوث برطانوی فوجیوں کے خلاف کارروائی

عابد حسین2 جنوری 2016

برطانیہ میں عراق جنگ کے دوران جرائم کے مرتکب فوجیوں کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بات الزامات کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے سربراہ نے بتائی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HX7s
Afghanistan Kabul Taliban-Angriff auf Botschaftsviertel - britische Soldaten
تصویر: Reuters/M. Ismail

برطانوی وزارت دفاع کی جانب سے عراق میں امریکی فوج کشی کے دوران برطانوی فوجیوں کی جانب سے ماورائے قانون جرائم اور دوسری وارداتوں کے ارتکاب کرنے والے فوجیوں کے خلاف تفتیشی عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ اِس تفتیشی سلسلے کو ماہرین کی ٹیم پر مشتمل ’عراق ہسٹارِک ایلیگیشن ٹیم‘ (IHAT) کی قیادت میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ٹیم کا قیام برطانوی وزارتِ دفاع نے کیا ہے اور اِس کے لیے خصوصی فنڈ بھی مہیا کیا گیا ہے۔

Misshandlung irakischer Gefangener durch britische Soldaten
ایک برطانوی فوجی ایک عراقی قیدی پر کھڑا ہےتصویر: dpa

اِس ٹیم کے سربراہ مارک واروِک نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ جرائم کے مرتکب برطانوی فوجیوں کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے واضح کیا کہ اُن کی ٹیم کے اراکین نے اِس سلسلے میں کئی ناقابلِ تردید ثبوت اکھٹے کیے ہیں۔ ان کے مطابق کئی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے شواہد جمع کیے جا چکے ہیں اور مرتکب فوجیوں کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہو گا۔ واروِک کے مطابق ایسے شہادتیں بھی حاصل کی گئی ہیں، جن سے معلوم ہوا ہے کہ کئی فوجی غیرقانونی ہلاکتوں ں اور تشدد کرنے کے مرتکب بھی ہوئے۔

انکوائری کرنے والی ٹیم کے مطابق پندرہ سو سے زائد ممکنہ ہلاکتوں کے حوالے سے متاثرین و لواحقین کی شہادتیں ریکارڈ کی گئی ہیں اور ان میں کم از کم 280 کو مبینہ طور پر غیرقانونی انداز میں ہلاک کیا گیا تھا۔ تفتیشی ٹیم کے سربراہ کے مطابق ماورائے قانون ہلاکتیں کرنے والے فوجیوں کے خلاف عدالتی کارروائی سن 2019 سے قبل شروع کرنا ممکن نہیں۔ اِس تفتیشی ٹیم کی مقررہ مدت بھی اِسی برس اپنے اختتام کو پہنچے گی اور تبھی یہ ایک مفصل اور جامع رپورٹ جمع کروائے گی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے اِس تفتیشی ٹیم کے انکوائری کرنے کے عمل کو طویل اور تھکا دینے والا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس عرصے میں عینی شہادتوں کے تلف ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔

برطانوی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کئی شواہد بظاہر انتہائی سنگین دکھائی دیتے ہیں اور اِن کی مکمل چھان بین کے بعد ہی فوجیوں کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی شرع کی جا سکتی ہے۔ اِس بیان میں یہ ضرور واضح کیا گیا کہ تمام فوجی عسکری آپریشنز کے لیے عراق میں تعینات کیے گئے تھے اور انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران تمام کارروائیوں میں پیشہ ورانہ اصولوں کو سامنے رکھا اور تمام عوامل کو قانون کے مطابق مکمل کیا تھا۔

مارک واروِک پولیس کے محکمے کے سابقہ سرغراساں رہ چکے وہیں اور وکیل بھی ہیں۔