1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جورجیا: پارلمانی انتخابات کے دوران تشدّد کی اطلاعات

21 مئی 2008

سخت تنائو اور کشیدہ ماحول میں آج جورجیا میں پارلمانی انتخابات کے لیے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/E3wc
جورجیا کے صدر میخایل ساکاش ویلیتصویر: picture-alliance/ dpa

ان انتخابات کو جورجیا کی مغرب نواز حکومت کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے جو کہ ایک جانب نیٹو کی رکنیت کی خواہش مند ہے تو دوسری طرف روس کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باعث خارجی اور داخلی مسائل کا شکار ہے۔


جورجیا کی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ پارلمانی انتخابات کے لیے ووٹنگ کے دوران باغی علاقے ابخازیہ میںووٹرز پر فائرنگ کی گئی ہے۔ حکومت کے مطابق ابخازیہ کے علاقے سے ووٹرز جورجیا کے زیرِ انتظام ایک گائوں میں ووٹ ڈالنے کے لیے جا رہے تھے جب ان کی بس پر ابخازیہ کے مزاحمت کاروں نے فائرنگ کی اور راکٹوں سے حملے بھی کیے۔ روسی حمایت یافتہ ابخازیہ انتظامیہ نے ایسے کسی واقعے کے رونما ہونے کی تردید کی ہے۔

جورجیا میں پارلمانی انتخابات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیںجب ابخازیہ اور جنوبی اوسیٹیا میں روسی امن دستوں میں اضافے کے حوالے سے جورجیا کی حکومت کو سخت تشویش لاحق ہے۔ جورجیا کے علاوہ نیٹو اور یورپی یونین نے بھی ان علاقوں میں روسی امن دستوں کے اضافے کو جارحانہ اقدام قرار دیا ہے۔

ان انتخابات میں مغرب نواز جورجیائی صدر میخائل ساکاشویلی کی فتح کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ یہ پیش گوئی نہ صرف یہ کہ یونائٹڈ نیشنل موومنٹ کی جانب سے کی جا رہی ہے بلکہ حذبِ اختلاف کے بہت سے حامیوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ ساکاشویلی جیت جائی گے اس واسطے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا امکان ہے۔


خود جورجیائی صدر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ انتخابات روس سے علیحدہ ہونے والی جورجیائی ریاست کے لیے ایک امتحان کا درجہ رکھتے ہیں کیوں کہ اس کو پیمانہ بنا کر جورجیا میں جمہوریت کے مستقبل کا تعین کیا جائے گا۔ یورپی مبصرین اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات کا شفّاف ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر جورجیا کو نیٹو میں شمولیت اور ابخازیہ اور جنوبی اوسیٹیا کے حوالے سے مغربی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔


حذبِ اختلاف نے اپنے حامیوں سے بدھ کی رات سڑکوں پر جمع ہونے کی اپیل کر دی ہے۔ حکومت کے مطابق یہ قبل از وقت انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی ایک کوشش ہے۔


اندازوں کے مطابق ان انتخابات میں سن دو ہزار چار سے بر سرِ اقتدار ساکاش ویلی کی جماعت کو تینتالیس فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے جس کے بعد ایک سو پچاس نشستوں پر مشتمل پارلمنٹ میں اکثریت نہ ملنے کے باعث ان کی جماعت کو اتحادیوں کی تلاش کرنی پڑے گی۔