1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جولیان اسانج کی گرفتاری ایک خطرناک راہ، تبصرہ

12 اپریل 2019

وکی لیکس کے بانی جولیاں اسانج کو گزشتہ روز لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگاہ ماتھیاس فان ہائن کے مطابق آزادیء صحافت پر یقین رکھنے والوں کو ان کے لیے لڑنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/3Gfn0

Anhänger des Wikileaks-Gründers Julian Assange protestieren vor dem Amtsgericht von Westminster, wo Assange einem Auslieferungsbefehl droht
تصویر: picture-alliance

بلآخر یہ ہو گیا۔ ایکواڈور کے حکام نے برطانوی پولیس کو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے جولیان اسانج کو حراست میں لینے کی اجازت دے دی۔

یہ قانون کی حکم رانی کے حوالے سے ایک مذاق اور آزادی رائے پر ایک کھلا حملہ بھی ہے۔ ان صحافیوں کے لیے دھچکا بھی جو تلخ سچ کو آزادیء اشاعت کے تحت شائع کرتے ہیں۔ کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ برطانوی حکومت نے برسوں تک لاکھوں پاؤنڈ خرچ کر کے جولیان اسانج کی گرفتاری کے لیے ایکواڈور کے سفارت خانے کے سامنے محافظ تعینات رکھے کیوں کہ اسانج کے خلاف سن 2010ء میں گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے تھے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جولیان اسانج کے خلاف واحد جائز الزام پر انہیں سن 2012ء میں ضمانت مل چکی ہے۔ برطانیہ میں ایسے الزام پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ عائد ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک برس تک کی قید، جب کہ جولیان اسانج پچھلے سات سال ایکواڈور کے سفارت خانے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں گزار چکے ہیں، یہ تو خود اس الزام سے بڑی سزا تھی۔

ابھی تو صرف ایک فیصد دستاویزات منظر عام پرلایا ہوں، اسانج

وکی لیکس کا بانی پھر خبروں میں، سویڈن کی اسانج سے پوچھ گچھ

اسانج کی گرفتاری کی واحد اور اصل وجہ یہ ہے کہ برطانیہ کے قریبی اتحادی ملک امریکا نے اسانج کی گرفتاری کو ترجیح پر رکھا ہے۔ سن 2018ء کے موسم خزاں میں، طویل عرصے سے جاری چہ مگوئیوں کے بعد واضح ہو گیا تھا کہ ایک امریکی عدالت اسانج کے خلاف فوج داری مقدمہ قائم کر رہی ہے اور الزام ہے، ریاستی راز افشا کرنا۔ سن 2017 میں تب کے امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اسانج کی گرفتاری ’امریکی ترجیح‘ ہے۔ اسی سال امریکی سی آئی اے کی سربراہی سنبھالنے والے (موجودہ وزیرخارجہ) مائیک پومپیو نے وکی لیکس کو دشمن ملک کی خفیہ سروس کا لقب دیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اسے بند کر دیا جائے گا۔

DW Kommentarbild Matthias von Hein

اس وقت پومپیو فقط امید ہی ظاہر کر سکتے تھے کیوں کہ ایکواڈور میں رافائل کوریا کی بائیں بازو کی حکومت نے لندن میں قائم اپنے ملک کے سفارت خانے میں اسانج کو تحفظ فراہم کر رکھا تھا۔ تاہم بعد میں وہ اقتدار سے باہر ہو گئی۔ کوریا کے بعد لینن مورینو کی حکومت کا اسانج سے متعلق موقف مختلف تھا۔ جس کے بعد اسانج کا سفارت خانے میں رہنا مشکل سے مشکل تر بنایا جانے لگا۔ اسانج کو سفارت خانے میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون رابطوں کے استعمال اور انہیں مہمانوں کو مدعو کرنے سے روک دیا گیا۔

مارچ تک امریکا چیلسی میننگ کو دوبارہ جیل بھیل کر واضح کر چکا تھا کہ وہ اسانج تک رسائی کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی لا رہا ہے۔ چیلسی میننگ نے عراق اور افغان جنگ سے متعلق کئی خفیہ امریکی دستاویزات لیک کی تھیں۔ انہیں سابق امریکی صدر باراک اوباما نے معافی دی تھی اور وکی لیکس کے خلاف بیان دینے سے انکار کیا تھا۔

وکی لیکس کئی طرح کے تلخ سچ سامنے لائی جو خصوصاﹰ دنیا کی کئی بڑی طاقتوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنے اور ان کی چھپی ہوئی کارروائیوں کا علم لوگوں کو ہوا۔ مثال کے طور پر امریکی فوج، امریکی خفیہ اداروں، امریکی سفارت کاروں اور دیگر سے متعلق معلومات۔ مگر حقیقی معنوں میں جمہوری ریاستوں کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو باخبر رکھیں کہ ان کی حکومتیں خفیہ طور پر کیا کچھ کر رہی ہیں۔

جولیان اسانج نے کبھی خود کوئی راز افشا نہیں کیا، انہوں نے فقط دستاویزات شائع کیں، کسی قابل اعتبار میڈیا ہاؤس کی طرح۔ جولیان اسانج کی ان اشاعتوں سے کئی جرمن میڈیا ہاؤسز نے براہ راست فائدہ اٹھایا۔ اور اب وقت ہے کہ کچھ لوٹایا بھی جائے اور اسانج کے حق میں بولا جائے۔ اس شخص کی کھل کر حمایت کی جائے، جس نے مختلف میڈیا اداروں کو خفیہ مواد تک رسائی دی۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے، تو عالمی طاقتیں دیگر میڈیا ہاؤسز کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گی، جیسا وہ اسانج کے ساتھ کر رہی ہیں۔

 

تبصرہ: ماتھیاس فان ہائن، ترجمہ: عاطف توقیر