1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری ہتھیاروں کے اسمگلر دہشت گرد گاہکوں کی تلاش میں

امتیاز احمد7 اکتوبر 2015

گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مشرقی یورپ میں ایسی چار کوششیں ناکام بنا دی گئیں، جن میں منظم مجرموں کے مشتبہ روسی گروہ تابکار مادے مشرق وسطیٰ کے عسکریت پسندوں کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔

https://p.dw.com/p/1Gk48
Angereichteres Uran
تصویر: PD

اس سلسلے میں آخری کارروائی رواں برس فروری میں کی گئی تھی۔ ایک اسمگلر کیمیائی مادے سیزیم کی اتنی بڑی مقدار فروخت کرنا چاہتا تھا، جو کئی شہروں کو آلودہ کرنے کے لیے کافی تھی اور یہ اسمگلر خاص طور پر دہشت گرد تنظیم داعش سے وابستہ گاہکوں کی تلاش میں تھا۔

تفتیش کاروں کے مطابق کچھ جرائم پیشہ گروہ، جن میں سے کچھ کا تعلق روس سے ہے، مشرقی یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک مالدووا میں جوہری مادوں کی بلیک مارکیٹ قائم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ مالدووا پولیس اور عدالتی حکام کا نیوز ایجنسی اے پی کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جوہری بلیک مارکیٹ انتہائی خطرناک ہو چکی ہے۔ اس مافیا کے خلاف امریکی سکیورٹی ادارے بھی مالدووا پولیس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مغرب اور روس کے مابین تعاون کے خاتمے کی وجہ سے بھی ان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اب وہ بے خبر ہیں کہ ایسے اسمگلر روس میں کون سے راستے اور طریقے استعمال کرتے ہوئے تابکار مادے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔

جوہری مادوں کی اسمگلنگ سے متعلق گزشتہ چاروں واقعات کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کونسٹانٹین ملیک کا کہنا ہے، ’’اس طرح کے مزید واقعات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ جب تک اسمگلروں کو یہ یقین ہے کہ وہ گرفت میں آئے بغیر بہت زیادہ مال کما سکتے ہیں، وہ ایسا کرتے رہیں گے۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ پولیس کے خفیہ اہلکار خود گاہک بن کر ان اسمگلروں سے رابطے میں رہے اور ہائی کلاس نائٹ کلبوں میں ان سے خفیہ ملاقاتیں بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ خفیہ اہلکار مہنگی ترین کاریں استعمال کرتے اور اسمگلروں کے ساتھ مل کر شراب بھی پیتے جبکہ مخبر بھی خود کو گینگسٹر ظاہر کرتے رہے۔

پولیس حکام کے مطابق ان کے لیے سب سے اہم کیس سن دو ہزار گیارہ میں سامنے آیا، جب انہوں نے روس کے ایک انتہائی پراسرار شخص الیگزینڈر آغینچو کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔ مالدووا پولیس کے اندازوں کے مطابق یہ شخص ایک سابق کرنل تھا اور سابقہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی میں بھی کام کر چکا تھا۔ پولیس کے مطابق اس کرنل کے لیے کام کرنے والا ایک رابطہ کار سوڈان میں کسی شخص کو ’بم گریڈ یورینیم (U-235)‘ اور ’ڈَرٹی بم‘ کے بلیو پرٹنس بیچنا چاہتا تھا۔ پولیس اور عدالتی حکام کے مطابق اس مڈل مین کے گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے بلیو پرنٹس قبضے میں لے لیے گئے تھے۔ اسی طرح ایک دوسرے مڈل مین نے اعتراف کیا کہ وہ تابکار عنصر یورینیم کسی عرب ملک میں بیچنا چاہتا تھا۔ پولیس اس مڈل مین کو تو نہ پکڑ سکی لیکن پولیس کے مخبر کے ساتھ ریکارڈ کی گئی اس کی گفتگو سے پتہ چلا کہ وہ داعش سے منسلک کسی گاہک کی تلاش میں تھا، تاکہ داعش ایسے مواد کو امریکا کے خلاف استعمال کر سکے۔

اسی طرح ایک دوسرے کیس میں درمیانے درجے کے اسمگلروں کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا، جب وہ ممکنہ گاہکوں کے لیے جوہری مادوں کے نمونے لے کر آئے تھے۔