جیلی فِش: نظرانداز حسن
جیلی فِش کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا بلکہ بسا اوقات لوگ اس سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سمندر میں بغیر کسی سوچ کے گھومتی پھرتی یہ پچکتی ہوئی مخلوق بہت حسین ہے۔
دماغ نہیں، کوئی مسئلہ نہیں
جیلی فِش کی مختلف اقسام سمندروں میں پانچ سو ملین سالوں سے گھومتی پھر رہی ہیں۔ اس مخلوق میں دماغ نہیں ہوتا۔ یہ مخلوق اپنے حساس اعصابی نظام پر انحصار کرتی ہے۔ کسی بھی شہ کو محسوس کر کے فوری ردعمل کے لیے تیار ہوتی ہے۔
سمندر کی فالودہ مچھلی
نام کے اعتبار سے یہ جیلی فِش نہیں کوئی اور سمندری مخلوق محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حقیقی طور پر يہ جیلی فِش نہیں ہے لیکن پھر بھی اُسی میں شمار ہوتی ہے۔ یہ یونانی تاريخ کی ايک بَلا میڈوسا جیسی ہے اور اسی باعث اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ اردو میں اسے فالودہ مچھلی یا نجم البحر کہا جاتا ہے۔ اس کا جسم گنبد نما اور انتہائی پچکتے مادے کا حامل ہوتا ہے۔
حساس ریشوں والی چھتری
جیلی فش کا بدن 99 فیصد پانی رکھتا ہے۔ انسانی بدن میں یہ مقدار 63 فیصد ہوتی ہے۔ جیلی فِش کا بڑا حصہ، وہ حساس بڑھے ہوئے ریشے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے وہ چھتری نما دکھائی دیتی ہے۔ ان بڑھے ہوئے ریشوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ جیلی فِش کی مخصوص اقسام میں یہ ریشے کئی میٹر لمبے بھی ہوتے ہیں۔
انتہائی بڑے جسامت والی جیلی فِش
جیلی فش کی بیشتر اقسام سفید اور شفاف یا ٹرانسپیرنٹ ہوتی ہیں۔ بہت کم اقسام کی جیلی فِش ایسی نہیں ہوتیں۔ ان میں خاص طور پر ایشیائی سمندروں کی نومُورا جیلی فِش رنگ برنگی ہوتی ہے۔ اس کا حجم بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ اس کے بدن کا قطر دو میٹر تک ہوتا ہے اور وزن دو سو کلوگرام تک ہو سکتا ہے۔
سمندری تھپیڑے اور جیلی فِش
جیلی فِش عموماً سمندروں میں ایک ہی سمت ميں جانے والی موجوں (Current) کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ کسی خاص منزل تک پہنچنے کی سوچ وہ نہیں رکھتی ہیں لیکن تیرتی جاتی ہے۔ یہ ایک گھنٹے میں دس کلومیٹر تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
خوبصورت اور زہریلی
سمندری پانی میں تیرتی جیلی فِش بہت خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ تاہم ان کی بعض اقسام بہت زہریلی بھی ہوتی ہے۔ ایک جیلی فِش(Lion's mane jellyfish) کے بڑھے ہوئے ریشوں کے کناروں پر اتنا زہریلا مادہ ہوتا ہے کہ اُس سے وہ اپنے شکار کو ہلاک کر دیتی ہے۔ یہ جیلی فِش آسٹریلیا کے ساحلی علاقوں اور مغربی بحرالکاہل میں پائی جاتی ہے۔
جیلی فش کا زخم جَلا ہوا لگتا ہے
لائنز مین جیلی فش جب کسی انسان کو کاٹتی ہے تو شدید درد پیدا ہوتا ہے۔ انسانی جسم پر اس کے زہر سے آگ سے جلنے کی طرح سرخی اور چھالے بن جاتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور جیلی فِش کو سمندری بھِڑ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
رنگوں کے خاص اثرات
جیلی فِش کی بے شمار اقسام ہیں اور یہ بہت ساری کیفیات کی حامل ہوتی ہیں۔ ان میں ایک پیلاگیا جیلی فِش سمندر میں کسی غیرمعمولی صورت حال میں خود بخود چمکنے لگتی ہے۔ یہ حسین نظارہ ناقابلِ بیان خیال کیا جاتا ہے۔
زندگی کی افزائش
جیلی فِش میں نسل بڑھانے کا عمل انتہائی حساس تصور کیا جاتا ہے۔ یہ مختلف نسلوں میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ کبھی وہ خود بخود اکیلے ہی نسل بڑھاتی ہے اور کبھی مادہ و نر کا ربط اس عمل میں شامل ہوتا ہے۔ یہ کبھی انڈے بھی دیتی ہے اور اُن سے اِس کی نسل کو فروغ ملتا ہے۔
جیلی فش کا سوتا ہوا دماغ
جیلی فش کا دماغ نہیں ہوتا لیکن اسے نیند ضرور آتی ہے۔ جیلی فِش کی کئی اقسام سونے کے لیے تہہِ سمندر میں چلی جاتی ہیں۔ اس دوران اُن کی نبض کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ یہی اُن کے آرام کا انداز ہے۔ سوتے میں ان کو تنگ کیا جائے تو یہ جاگ بھی جاتی ہیں۔
جیلی فش سے تیارکردہ کھانے
جیلی فِش سمندروں سے ساحلوں کی جانب اُسی وقت بڑھتی ہیں جب ان کے علاقوں ميں کچھووں کی تعداد میں کمی ہوتی ہے۔ یہ کچھووں کو خاصی مرغوب ہیں۔ اب بعض ملکوں کے کئی ساحلی ریسٹورانٹوں میں پچکتے جسم والی جیلی فِش سے تیار شدہ کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ کئی لوگوں نے انہیں لذیذ قرار دیا ہے کیونکہ اس کا اپنا ایک مخصوص ذائقہ ہے۔
پریشان حال جیلی فِش
اگر ساحل پر کوئی جیلی فِش ریت پر دیکھیں تو سمجھ لیں کہ وہ ریت میں پھنس گئی ہے۔ موٹے دستانوں سے ہاتھ محفوظ کرتے ہوئے ریت میں پھنسی جیلی فِش کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیں۔ اس کو ہاتھ نہیں لگانا ہوتا اور نہ ہی اس پر پاؤں رکھ کر گزریں۔ یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس کو پکڑ کسی پر پھینکنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ احتیاط ضروری ہے۔